ایک پارلیمانی پینل بدھ کے روز دبئی کے حکام کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے میں ناکام رہا جس نے پاکستانی شہریوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے گزشتہ ایک سال سے ویزوں کا اجراء روک دیا ہے۔
کمیٹی کے دیگر ارکان کی طرح سینیٹر ذیشان خانزادہ جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر ظلم و ستم کے خلاف متعدد شکایات موصول ہونے کے باوجود خاموش رہے جو یا تو متحدہ عرب امارات جانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا کئی سالوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔
کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے ویزا کے اجراء کے لیے دباؤ ڈالنے والے قانون ساز بے بس ہیں کیونکہ انہیں خود متحدہ عرب امارات کا ویزا مل چکا ہے جو انہیں ’غیر جانبدار‘ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کا ایک عام پاکستانی کے ویزے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جو بہتر مواقع کی تلاش میں دبئی جانا چاہتا ہے یا ایک مزدور، جو مسلسل ویزا مسترد ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ کو ڈر ہے کیونکہ اگر انہوں نے ویزا کا مسئلہ اٹھایا تو ان کے اپنے (دبئی) ویزے منسوخ کر دیے جائیں گے۔
اجلاس کے آغاز میں کسی بھی رکن نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں پر یو اے ای کی ویزا پابندی کا معاملہ نہیں اٹھایا کیونکہ ان میں سے اکثریت نے یا تو مکمل طور پر خاموشی اختیار کی یا ان میں سے کچھ نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے ان کیمرہ اجلاس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ ایک موقع پر کمیٹی کے چیئرمین نے پاکستانیوں پر متحدہ عرب امارات کی ویزا پابندی کے تنازعے کو غلط رپورٹنگ کرنے کا الزام بھی بین الاقوامی میڈیا پر عائد کردیا۔
کمیٹی کے ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندے کو بتایا کہ ’یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے کیونکہ ہم سب کے پاس متحدہ عرب امارات کا ویزا ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’ویزا پابندی کا مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جب ہم عہدوں پر فائز افراد یا تو وزیر اعظم یا آرمی چیف اس معاملے کو متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے سامنے اٹھائیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024