مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے بجلی کی موجودہ تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پیز) کی تلاش کی سفارش کی ہے۔
سی سی پی کی رپورٹ، ”پاکستان میں اہم مارکیٹس میں مسابقت کی صورتحال: پاور سیکٹر“ کے مطابق، ڈسکوز مسلسل حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہی ہیں، جنہیں زیادہ ڈسٹری بیوشن نقصانات، ریونیو لیکیج، بل وصولی کی کم شرح، بجلی کی وسیع پیمانے پر چوری، اور سپلائی میں رکاوٹوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، موجودہ ڈسکوز کی نجکاری یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس (پی پی پیز) کو تلاش کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ متعلقہ ریگولیٹری فریم ورک اب ڈسکوز کے لیے کھلا ہے کیونکہ ترمیم شدہ نیپرا ایکٹ میں انحصاری شق ختم کردی گئی ہے۔
سی سی پی نے سفارش کی کہ موجودہ ڈسکوز کی مکمل نجکاری کی جاسکتی ہے یا ڈسکوز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس کے تحت چلایا جاسکتا ہے تاکہ زیادہ ڈسٹری بیوشن نقصانات کو کم کیا جائے اور مارکیٹ کو کھولا جا سکے۔“
موجودہ ڈسکوز کو چھوٹے یونٹس میں تقسیم کرنا اور ان کے علاقوں کو زیادہ قابلِ انتظام حصوں میں بانٹنا ڈسٹری بیوشن سیکٹر میں نئے پلیرز، مقامی انتظام، بہتری اور مسابقت میں اضافہ کرے گا۔
سی سی پی نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں نجکاری عالمی رجحان کا حصہ رہی ہے، جس میں وسائل کی تقسیم میں حکومت پر کم انحصار اور مارکیٹ فورسز پر زیادہ اعتماد کیا گیا ہے۔
اس اصلاحات کے بنیادی محرکات یہ تھے: (اے) سرکاری زیرِ انتظام بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی میں کمی، جس میں زیادہ لاگت، بجلی تک محدود رسائی، اور غیرمستحکم فراہمی شامل ہے۔
بی) بنیادی سرمایہ کاری اور دیکھ بھال کے لیے ریاستی شعبے کی مالی وسائل فراہم کرنے کی صلاحیت کا فقدان۔
سی) سبسڈیز کو ختم کرنے کی ضرورت، تاکہ وسائل کو دیگر عوامی اخراجات کے لیے دوبارہ مختص کیا جا سکے؛ اور ڈی) اس شعبے سے اثاثے فروخت کرکے حکومت کے لئے فوری آمدنی پیدا کرنا ہے۔
سی سی پی نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ بجلی چوری کی بلند شرح اور صارفین کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے مالی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔
سی سی پی کی رپورٹ کے مطابق صارفین کا رویہ مارکیٹوں میں مسابقت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، پاکستان کے توانائی شعبے کے معاملے میں، یہ مسابقت میں منفی کردار ادا کرتا ہے.
رپورٹ میں کہا گیا کہ ادارہ جاتی جمود اور نئی ٹیکنالوجیز اور طریقہ کار اپنانے کی مزاحمت نے جدیدیت اور کارکردگی میں بہتری کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ ناقص طرز حکمرانی، جوابدہی کی کمی، اور کچھ سرکاری کمپنیوں میں کرپشن کے باعث بدانتظامی اور نااہلی پیدا ہوئی ہے۔ ناقص سروس معیار کی وجہ سے اکثر صارفین میں عدم اطمینان، احتجاج، اور گرڈ اسٹیشنز پر حملے ہوتے ہیں، جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور یوں مسابقت کو محدود کر دیتے ہیں۔
یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بجلی کے شعبے میں ریگولیٹری اصلاحات دنیا بھر میں ایک رجحان رہی ہیں، پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ تاہم، پاکستان دوسرے ممالک کی طرح مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسابقت کی کمی اور نجی شعبے کو مختلف مارکیٹ سیگمنٹس میں شرکت کے لیے ضروری جگہ فراہم کرنے میں ناکامی ہے۔
شعبہ متعدد مسائل سے گھرا ہوا ہے جو مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت کو محدود کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں مسابقت کی کمی کو برقرار رکھتی ہیں اور اکثر وہ عوامل کو مزید تقویت دیتی ہیں جو مسابقت کو بگاڑتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں نئے حریفوں کو مارکیٹ میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، اور ساتھ ہی موجودہ کھلاڑیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں درج ذیل ہیں:
اے) ساختی/ قدرتی رکاوٹیں،
(ب) ریگولیٹری رکاوٹیں، اور
سی) مارکیٹ کے پلیئز کے غیر مسابقتی رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں ہیں۔
کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2024