روسی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس وقت امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک استحکام اور اسلحہ کنٹرول پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ بات انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے روسی نائب وزیر خارجہ کے حوالے سے بتائی ہے۔
انٹرفیکس کے مطابق سرگئی ریابکوف نے کہا کہ ماسکو اور واشنگٹن فوجی اور سیاسی سطح پر بند چینلز کے ذریعے یوکرین کے بارے میں اشاروں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس یوکرین کے بحران کے حل کے لئے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجاویز سننے کے لئے تیار ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس کا کوئی آسان حل نہیں ہوسکتا ہے۔
انٹرفیکس نے ریابکوف کے حوالے سے کہا کہ ہم اس خطے کے ممالک کی طرف سے پیش کردہ کسی بھی تجاویز کے بارے میں انتہائی جامع، ذمہ دار اور محتاط ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو امریکی انتخابات جیتنے پر ٹرمپ کو مبارکباد دی، جولائی میں ایک مسلح شخص کی جانب سے انہیں قتل کرنے کی کوشش کے دوران جرات کا مظاہرہ کرنے پر ان کی تعریف کی اور کہا کہ ماسکو ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے جنگ کے خاتمے کی کوشش کے بارے میں جو تبصرے کیے ہیں وہ توجہ کے لائق ہیں۔
ٹرمپ نے این بی سی کو بتایا کہ انہوں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے پوٹن سے بات نہیں کی ہے لیکن میرے خیال میں ہم بات کریں گے۔
ریابکوف نے کہا کہ اگر روس کے منجمد اثاثے ضبط کر لیے گئے یا واشنگٹن نے یوکرین کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ کیا تو امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔
انٹرفیکس کی رپورٹ کے مطابق ریابکوف نے روس کے تازہ ترین جوہری نظریے پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغرب کے ساتھ تعلقات اور یوکرین کی صورتحال میں شدید بحران پیدا ہوتا ہے تو اس سے ”جوہری آپشن کی طرف رجوع کرنا“ ممکن ہو جائے گا۔
انہوں نے انٹرفیکس کو بتایا کہ اس عمل کو حتمی شکل دی جائے گی، روسی فیڈریشن کے صدر سپریم کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے بلا شبہ ایسے فیصلے کریں گے جن کا مطلب اس شعبے میں ہماری سرگرمیوں کی تصوراتی بنیادوں کو بہتر بنانا ہوگا۔
پیوٹن نے ستمبر میں مغرب کو متنبہ کیا تھا کہ ڈاکٹرائن میں مجوزہ تبدیلیوں کے تحت اگر روس کو روایتی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تو وہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے اور جوہری طاقت کی مدد سے اس پر کسی بھی حملے کو مشترکہ حملہ تصور کرے گا۔