بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن میں دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 24 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوگئے۔
ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس کو صبح 9 بجے پشاور کے لیے روانہ ہونا تھا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آپریشنز محمد بلوچ نے بتایا کہ دھماکہ ریلوے اسٹیشن کے اندر اس وقت ہوا جب پشاور جانے والی ایکسپریس اپنی منزل کے لیے روانہ ہونے والی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی عمل جاری ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ دھماکا خودکش تھا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں اب تک 24 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہدف انفنٹری اسکول کے فوجی اہلکار تھے جن میں سے کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور سیکیورٹی فورسز جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں جب کہ زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا۔
حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق انہوں نے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں جو معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا کی۔
وزیراعظم نے بلوچستان حکومت سے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
انہوں نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ انہوں نے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔
یاد رہے کہ اگست کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں نے تھانوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر حملے کیے تھے جس میں کم از کم 73 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اگست میں ہونے والے حملے کئی سالوں میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر کیے جانے والے حملے تھے، جن کا مقصد وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبے کی علیحدگی کے لیے جاری دہائیوں پر محیط بغاوت کو آگے بڑھانا تھا۔ صوبے میں چین کی زیر قیادت بندرگاہ اور سونے اور تانبے کی کان جیسے بڑے منصوبے موجود ہیں۔