پی آئی اے کی فروخت کا معاملہ

07 نومبر 2024

ہالووین، 31 اکتوبر، جو خوف اور ہولناک مناظر سے منسوب ایک دن ہے، نے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کی نیلامی پر بھی اپنے اثرات ڈال دیے، جس کی بولی اسی دن کے لیے مقرر تھی۔

اب سوال یہ نہیں کہ اس عمل میں کہاں غلطی ہوئی، بلکہ یہ ہے کہ اگر کچھ ٹھیک ہوا بھی تو کیا؟ کم از کم 80 ارب روپے کی بولی قیمت کا محض 12.5 فیصد یعنی 10 ارب روپے کی پیشکش واحد بولی دہندہ نے کی، جو ایک رئیل اسٹیٹ کے کاروباری شخصیت تھے جنہیں اس مخصوص صنعت کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں تھا۔

متعدد ذرائع سے ملنے والی معتبر رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ واحد بولی دہندگان کے پاس ادائیگی کرنے کے لئے لیکویڈیٹی نہیں تھی ، کیونکہ انہیں سرکاری عہدیداروں سے یہ پوچھتے ہوئے سنا گیا تھا کہ کیا اس پیشکش میں زمین کی قیمت کو ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔

وزیرِ نجکاری علیم خان، جو خود بھی ایک بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ہیں، نے اپنے دفاع میں کہا کہ فروخت کے فریم ورک کو نگراں حکومت کے دور میں حتمی شکل دی گئی تھی، اور یہ حتمی شکل پارلیمنٹ کی جانب سے 26 جولائی 2023 کو شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی طرف سے پیش کردہ 2017 کے الیکشن ایکٹ کی آرٹیکل 230 میں ترمیم کی منظوری کے بعد ممکن ہوئی، جس کے تحت نگراں حکومت کو ان حالات میں جو پاکستان کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہوں، دو طرفہ یا کثیر الجہتی معاہدوں یا پہلے سے شروع کردہ منصوبوں کے سلسلے میں فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ اجازت عوامی و نجی شراکت داری اتھارٹی ایکٹ 2017، بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022، اور نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000 کے تحت دی گئی تھی۔ بزنس ریکارڈر کی رائے درست ثابت ہوئی، کیونکہ اس نے نگراں حکومت کو اس طرح کی مکمل فیصلہ سازی کے اختیار کی مخالفت کی تھی۔

علیم خان کی جانب سے نجکاری کمیشن کے تمام سابق چیئرمینوں کے خلاف سخت بیان ان کی سیاسی دیانتداری پر سوال اٹھاتا ہے، کیونکہ انہوں نے موجودہ حکومت میں ایک وزارت قبول کی، حالانکہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رکن کی حیثیت سے باقاعدگی سے اپنی کابینہ کے موجودہ ساتھیوں کو بدترین بدعنوان اور نااہل قرار دیتے رہے ہیں۔

اگرچہ سیاسی دیانت داری ہمارے سیاست دانوں کی خصوصیت نہیں سمجھی جاتی، لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ شخص ہے جسے قانونی طور پر بولی کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، کسی کو امید تھی کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے، جسے وزیر اعظم نے قبول کیا ہے یا نہیں۔

بولی کی ناکامی کا نتیجہ بولی سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بیرون ملک میڈیا کو فخر کے ساتھ بتایا کہ ان کی بیٹی مریم نواز نے ائرلائن خریدنے اور اسے ”پنجاب ائر“ کا نام دینے کے لیے ان سے رائے لی تھی، جبکہ نئے جہاز خریدنے کا ارادہ بھی تھا۔

اگر وہ سمجھتی ہیں کہ صوبے کے پاس ائر لائن خریدنے کے وسائل موجود ہیں تو انہیں سیکریٹری خزانہ کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے کیونکہ صوبے نے جولائی تا ستمبر 2024 ء کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو 342 ارب روپے سرپلس دینے کا وعدہ کیا ہےجو کہ پہلے ہی 182 ارب روپے کم ہو چکا ہے۔

اگر ان کا ارادہ خاندان کی جانب سے ائر لائن خریدنا تھا تو انہیں ورجن اٹلانٹک ائرویز کے مالک رچرڈ برینسن کے مشورے پر دھیان دینا چاہیے جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ اگر آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو ایک ارب ڈالر سے آغاز کریں اور ایک نئی ائرلائن شروع کریں۔

ورجن ائرلائن کو بچانے کے لیے برینسن کو اپنی ذاتی 200 ملین ڈالر کی خطیر رقم لگانی پڑی — یہ وہ صنعت ہے جس میں بے شمار دولتیں ڈوب چکی ہیں۔

خیبر پختونخوا نے باضابطہ طور پر ائرلائن کی بیدنگ میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ائرلائن قومی فریم ورک کا حصہ بنی رہے۔ تاہم خیبر پختونخوا کے پاس پنجاب سے بھی کم وسائل ہیں، اور امید کی جاتی ہے کہ ان دونوں صوبائی حکومتوں کی توجہ اپنے عوام کے لیے بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات کی فراہمی پر مرکوز ہو، نہ کہ ایسے ایڈونچرز میں جن کے لیے ان کے پاس نہ مالی وسائل ہیں اور نہ ہی صلاحیت۔

نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے میں کئی مسائل درپیش ہیں، جن میں ملک کے اندر اور باہر مناسب سرمایہ کاری کے ماحول کی کمی، اور ایک مالیاتی نظام کی عدم موجودگی شامل ہے جو نئے مالکان یا عام عوام کو ہولڈنگ کمپنی میں موجود بڑے خسارے پر سود کی ادائیگی سے محفوظ رکھ سکے۔

یاد رہے کہ عوام پہلے ہی اپنی ٹیرف میں سود کی مد میں اضافی رقم ادا کررہے ہیں، جو پچھلی حکومت کے سرکلر انرجی ڈیٹ کو ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کرنے کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔

یہ سنگین مسائل ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے؛ اور آخرکار، اس ملک میں ماضی کی غلط پالیسی فیصلوں کے ذمہ داروں کو جوابدہ نہ بنانے کی عادت کو ترک کر کے جوابدہی کو فروغ دینا ہوگا۔

صرف اسی صورت میں ملک ایماندار مردوں اور عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگا — چاہے وہ اقتصادی یا سیاسی نقطہ نظر سے ہوں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments