سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ مملکت کی طرف سے واشنگٹن کے ساتھ طے پانے والے کچھ دوطرفہ معاہدے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے مشروط نہیں ہیں اور یہ آگے بڑھ رہے ہیں۔
شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے سعودی دارالحکومت ریاض میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تجارت اور مصنوعی ذہانت سے متعلق امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ معاہدے کسی تیسرے فریق سے منسلک نہیں ہیں اور یہ ممکنہ طور پر بہت تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دفاعی تعاون کے کچھ اہم معاہدے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ہم یقینی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ان معاہدوں کو پورا کرنے کے موقع کا خیرمقدم کریں گے لیکن یہ ہمارے کنٹرول سے باہر دیگر عوامل پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر امور کے دھارے اتنے منسلک نہیں ہیں اور ان میں سے کچھ کافی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آگے بڑھیں گے۔
سعودی عرب اور امریکہ جوہری توانائی، سیکورٹی، اور دفاعی تعاون کے حوالے سے سلسلہ وار معاہدوں پر غور کر رہے ہیں جو اصل میں ریاض اور اسرائیل کے ساتھ وسیع تر معمول کی ڈیل کا حصہ تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیروں نے 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے سہہ فریقی مذاکرات میں یہ تصور کیا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کی سیکورٹی کی ضمانتیں اور جوہری تعاون حاصل کرے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مئی میں کہا تھا کہ واشنگٹن اور ریاض کئی معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں لیکن انہوں نے متنبہ کیا کہ معمول پر آنے کے لیے غزہ میں امن اور فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔
شہزادہ فیصل نے جمعرات کے روز سعودی عرب کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس معاہدے پر سعودی عرب کو صورتحال معمول پر لانے سے پہلے حالات کے ٹھیک ہونے تک انتظار کرنے میں بہت خوشی ہے۔