کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ پاکستان مختلف خاکے پیش کرتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ماحول کہاں اور کیسا ہے۔
جائیٹکس گلوبل میں پاکستان کا ایک مختلف پہلے سامنے آیا۔ اس کا خاکہ ’ٹیکنالوجی کی منزل‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا اور جدت طرازی و ترقی کی بات ہو رہی تھی۔ یہ امید کا ایک بہتر احساس تھا۔
لیکن ملک میں صورتحال مختلف ہے۔
اب تک صارفین کو انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات درپیش ہیں، رفتار سست ہے اور دیگر چیلنجز برقرار ہیں۔
بحیثت صحافی بھی بہت کچھ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی ہے، ہر کوئی مایوسی کا شکار ہے لیکن کوئی بھی آواز بلند نہیں کر پارہا، اسکرین کے پیچھے اور آف دی ریکارڈ مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، لیکن پھر چہرے پر ایک حب الوطنی اور امید سے لبریز ایک مسکراہٹ آتی ہے، یہاں آپ کو آئی ٹی کے شعبے کے ساتھ منفرد امکانات سے بھرپور پاکستان ملتا ہے، آئی ٹی ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کو گمنامی سے نکال کر کامیابی کے عالمی خطوط پر استوار کرنے کیلئے تیار ہے۔
دبئی میں ہونے والی تقریب میں ایک سوال جو متواتر پوچھا جاتارہا وہ یہ تھا کہ ہم جائیٹکس کو پاکستان لانے کی بات کیوں نہیں کرتے؟
متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر فیصل نياز ترمذی نے بزنس ریکارڈر کے ایک انٹرویو میں پہلے ہی کہا ہے کہ وہ اس تجویز پر عمل کریں گے۔ تو یہ اب واضح طور پر زیر غور ہے۔
لیکن اس کے باوجود کہ اس پر عمل جاری ہے، کچھ وجوہات ہیں جن کی بنا پر جائیٹکس پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔
ایک سافٹ ویئر کمپنی کے سی ای او نے اس کی وجہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی کمی بتائی۔
جائیٹکس کی شروعات 1981 میں دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں صرف ایک ہال کے اندر تقریب سے ہوا تھا۔ اب جائیٹکس کے ساتھ ایک اضافی ایونٹ کے طور پر ”ایکسپینڈ نارتھ اسٹار“ بھی دبئی ہاربر میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ اپنے 44 ویں ایڈیشن میں جائیٹکس دبئی میں 27 ہالز تک پھیل چکا ہے اور اب سنگاپور، مراکش، نائجیریا اور برلن میں بھی منعقد کیا جا رہا ہے۔
”اگر یہ نائجیریا میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟“
ایک اور عہدیدار نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا مقام ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ہزاروں افراد یا شرکا کیلئے انتظامات کیے جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جگہ ہے اور نہ ہی ایسا مزاج ہے جو اچھی سیکورٹی کا تاثر دے سکے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تمام اہلکار بندوقوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو غیر ملکی نہیں آئیں گے۔
تاہم سرکاری محکمے کے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ جائیٹکس کو آئی ٹی سی این ایشیا کے ساتھ تعاون کے ذریعے پاکستان لایا جا سکتا ہے جو پاکستان میں ٹیک ایونٹس کا انعقاد کرتا ہے۔
لیکن یہی حکام پاکستان کے آئی ٹی کے مسئلے سے بھی آگاہ ہیں۔
کئی عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ آئی ٹی کے شعبے میں بحران ہے – اگر چہ حکومت اس پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
سوفٹ ویئر کمپنی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ میں یہ آف دی ریکارڈ کہہ رہا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر چیزیں اسی طرح جاری رہیں تو آئی ٹی برآمدات 10 ارب ڈالر تک جانے کے بجائے 10 گنا کم ہو سکتی ہیں یعنی 3 ارب ڈالر سے 30 کروڑ ڈالر تک گرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں کلائنٹ کے واٹس ایپ پیغامات دیکھ سکتا ہوں اور نہ ہی سن سکتا ہوں۔ ان کے پاس میری کیا امیج ہوگی اور میں ان کے ساتھ کاروبار کیسے جاری رکھوں گا؟
ایک اور حکومتی عہدیدار نے آف دی ریکارڈ کہا کہ وہ (جو بھی برآمدی ہدف طے کرتے ہیں) چاہتے ہیں کہ ہم آئی ٹی کی برآمدات کو 10 بلین یا 15 بلین ڈالر تک بڑھائیں، ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں اگر ہمیں انٹرنیٹ کے مسائل درپیش ہیں؟
اس سال جائیٹکس میں اور اس سے پہلے بھی پاکستانیوں کو امارات ویزے نہیں مل رہے تھے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاحتی/وزٹ ویزوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
ایک غیر ملکی سرمایہ کار، جو نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے کہا کہ ایک غیر ملکی یا غیر ملکی کمپنی کے لیے بہترین یہ ہے کہ وہ پاکستان سے بہترین ٹیلنٹ کو منتخب کرے اور انہیں ملک سے باہر لے جائے تاکہ ان کی صلاحیتوں کا بہترین فائدہ اٹھایا جا سکے۔
پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر میں امکانات کی کمی ہو سکتی ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب بنیادی انفراسٹرکچر، سیکیورٹی اور بین الاقوامی تعلقات آڑے آ رہے ہیں تو ملک اپنی پوری صلاحیت سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
تاہم فی الوقت پاکستان میں جی آئی ٹی ای ایکس کی میزبانی بھول جائیں۔ سب سے پہلے ملک میں اس کے شہریوں کیلئے ماحول سازگار اور دوستانہ بنائیں۔
مضمون بزنس ریکارڈر یا اس کے مالکان کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا