ٹیکس فراڈ، مینوفیکچررز پر بھاری جرمانہ عائد، ایف بی آر نے سیمنٹ سیکٹر کی چھان بین شروع کردی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کوئلے کی خریداری کی جعلی انوائسز کے خلاف مبینہ طور پر ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کرنے...
29 اکتوبر 2024

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کوئلے کی خریداری کی جعلی انوائسز کے خلاف مبینہ طور پر ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کرنے پر ملک کے معروف سیمنٹ مینوفیکچررز پر بھاری جرمانہ عائد کرنے کے بعد سیمنٹ سیکٹر کی چھان بین شروع کردی ہے۔

اس کیس میں بلیک لسٹ کی گئی کمپنیوں اور کاغذی لین دین کے پیچیدہ جال کا انکشاف ہوا جو سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس نے پاکستان کے سیمنٹ سیکٹر میں جعلی ان پٹ ٹیکس دعوئوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے ایف بی آر کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس اتھارٹی اب اس شعبے میں اسی طرح کی ٹرانزیکشنز کی چھان بین کر رہی ہے اور ایل ٹی او کراچی نے ایک اور بڑے سیمنٹ مینوفیکچرر کا آڈٹ بھی شروع کر دیا ہے۔

لارج ٹیکس دہندگان کے دفتر (ایل ٹی او) کراچی نے ایک تشخیصی حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیمنٹ بنانے والی اس معروف کمپنی نے ستمبر 2022 کے دوران بلیک لسٹ کی گئی کمپنی کی جانب سے جاری کردہ مبینہ جعلی انوائسز کی بنیاد پر 14,686,443 روپے کے ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ تحقیقات انٹرنل آڈٹ ان لینڈ ریونیو (آئی اے آئی آر) کراچی کی فراہم کردہ معلومات سے شروع کی گئیں، جس میں کمپنی کے ٹیکس گوشواروں میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کی گئی تھی۔

آئی اے آئی آر کراچی نے دعویٰ کیا ہے کہ سیمنٹ کی اس سب سے بڑی کمپنی کو مبینہ طور پر 1.6 ارب روپے کی جعلی خریداری دکھاکر سیلز ٹیکس کی مد میں 31 کروڑ 60 لاکھ روپے کا مالی جھٹکا دیا گیا۔

آئی اے آئی آر کراچی نے انکشاف کیا کہ جعلسازوں نے متعدد کمپنیوں کے درمیان جعلی خریداری اور فروخت کا سلسلہ قائم کیا اور پھر ان جعلی ٹرانزیکشنز کی بنیاد پر ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا جسے ذرائع نے ٹرانزیکشنز کے لیے مناسب منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکام ہو کر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 73 کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید برآں، انہوں نے ایف بی آر کے پورٹل پر ”فعال“ حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپریشنز کو معتبر بنانے کے لئے ”ود ہولڈنگ ایڈجسٹمنٹ“ اور ”جعلی کریڈٹ نوٹوں“ کا استعمال کیا تاکہ جعلی ان پٹ ٹیکس کلیمز تیار کیے جاسکیں۔

تخمینے کے حکم نامے میں ایک جامع مالیاتی جرمانے کے ڈھانچے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ سیمنٹ کی سب سے بڑی کمپنی کو ایک کروڑ 46 لاکھ 80 ہزار روپے کی اصل رقم ادا کرنا ہوگی، ٹیکس فراڈ پر مساوی جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا اور 5 فیصد عدم ادائیگی جرمانے کے طور پر اضافی 7 لاکھ 34 ہزار 322 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ ادائیگی کے وقت ان رقم میں ڈیفالٹ سرچارج شامل کیا جائے گا۔

حکم نامے میں اس معاملے کو ایک پیچیدہ سپلائی چین فراڈ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس میں سپلائرز کی متعدد پرتیں شامل ہیں، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نہ تو پرائمری سپلائر اور نہ ہی اس کی سپلائی چین کے کسی کاروبار نے اصل میں کوئلہ درآمد کیا تھا اور نہ ہی اسے کان کنی کمپنیوں سے خریدا تھا۔

درآمدی اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد ٹیکس اتھارٹی نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کسی بھی فریق کی جانب سے کوئلے کی درآمد نہیں کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اب تک سپلائی چین میں شامل 12 کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان تمام کمپنیوں کو ملک بھر کے مختلف ریجنل ٹیکس دفاتر (آر ٹی اوز) نے پہلے ہی بلیک لسٹ کردیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ ٹیکس نے 26 دسمبر 2023 سے سیمنٹ بنانے والی اس کمپنی کو سماعت کے متعدد مواقع فراہم کیے تھے لیکن ان کا جواب اپنے ٹیکس کنسلٹنٹس کے ذریعے 15 دن کی توسیع کی درخواست تک محدود تھا۔

مزید برآں، یہ سیمنٹ مینوفیکچرر تمام ضروری دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جن میں خریداری کے انوائسز، وزن رسیدیں، ڈلیوری چالان، بینک ادائیگی کے ثبوت، کھپت کی رپورٹ، پیداوار ی ریکارڈ، اسٹاک رجسٹر، اور بندرگاہوں کے گیٹ پاس شامل ہیں جن میں درآمد شدہ کوئلے کے اجراء کو دکھایا گیا ہے۔

لہٰذا یہ واضح ہے کہ سیمنٹ بنانے والی اس کمپنی نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 73 پر عمل نہیں کیا جس کے تحت ادائیگی مناسب بینکنگ چینلز کے ذریعے کی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ سیمنٹ بنانے والا یہ سب سے بڑا کارخانہ دار نہ تو سامان کی نقل و حرکت کا ثبوت فراہم کر سکا اور نہ ہی دستاویزات فراہم کر سکا جس سے ان کی مینوفیکچرنگ کے عمل میں کوئلے کے استعمال کا پتہ چلتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments