باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پاور ڈویژن ’ونٹر پیکیج 24‘ کو حتمی شکل دے رہا ہے جس کا مقصد سردیوں میں خاص طور پر صنعت اور اسپیس ہیٹنگ میں بجلی کی کھپت کو بڑھانا ہے، تاہم اس کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے منظوری ملنے کا امکان کم ہے۔
ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن، جو صنعت، تجارتی شعبے اور گھریلو صارفین کی جانب سے بڑے پیمانے پر سولر پینلز کی تنصیب سے حیرت میں ہے کا کہنا ہے کہ اگر ایک خصوصی پیکیج کے ذریعے سردیوں میں بجلی کی کھپت میں اضافہ نہ کیا گیا تو کیپیسٹی پیمنٹ مزید بڑھ جائیں گی۔
سردیوں میں بجلی کی کھپت 8,000 میگاواٹ سے 10,000 میگاواٹ تک کم ہو جاتی ہے جبکہ گرمیوں میں یہ کھپت 28,000 میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اب ملک بھر میں تقریبا 7000 سے 8000 میگاواٹ کے سولر سسٹم کی تنصیب ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے لیے ایک اور بڑا چیلنج پیش کر رہی ہے۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں موسم سرما کے پیکج کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اہم سوال جو زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ مجوزہ پیکیج کی سبسڈی کا خمیازہ کون برداشت کرے گا کیونکہ فنانس ڈویژن پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مفاہمت کے مطابق بجٹ میں سے سبسڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وزیر پٹرولیم مصدق ملک کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی اسپیس ہیٹنگ کے ذریعے بجلی کی کھپت میں اضافے پر کام کر رہی ہے کیونکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس دن میں صرف تین بار یعنی ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانے کے وقت دستیاب ہوگی۔
ذرائع نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ونٹر پیکیج، اسپیس ہیٹنگ، اور سولر صارفین پر کچھ ٹیکس کے مشترکہ تین پروپوزل ای سی سی یا کابینہ کے سامنے پیش کیے جائیں، بشرطیکہ آئی ایم ایف کی منظوری حاصل ہو، مزید یہ کہ آئی ایم ایف سے پہلے ہی اس کی منظوری کے لیے رابطہ کیا جا چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر ونٹر پیکج کو آئی ایم ایف کی منظوری مل جاتی ہے تو اس سے موسم سرما میں بجلی کی کھپت میں 3000 میگاواٹ تک اضافہ ہوگا کیونکہ بجلی کا بڑا حصہ صنعت وں اوراسپیس ہیٹنگکی جانب سے استعمال کیا جائے گا۔
پاور ڈویژن نے اگست میں وزیراعظم آفس کو آگاہ کیا تھا کہ ٹیرف میں حالیہ اضافے کی وجہ سے حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاملہ مناسب وقت پر اٹھایا جائے گا۔
گزشتہ سال نگران حکومت نے ٹیرف میں کمی کا پیکج تیار کیا تھا اور آئی ایم ایف سے منظوری طلب کی تھی لیکن آئی ایم ایف نے اس تجویز کو اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ غیر رہائشی صارفین سے رہائشی صارفین کو کراس سبسڈی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان اس وقت کمزور گھرانوں پر بجلی کے نرخوں کے اثرات سے کس طرح نمٹتا ہے۔
آئی ایم ایف نے دلیل دی کہ جب تک کوئی متبادل طریقہ کار احتیاط سے تیار نہ کیا جائے، اس کراس سبسڈی میں کمی مؤثر طریقے سے سب سے کمزور لوگوں کی مدد کو کم کرتی ہے (بالکل اسی طرح جیسے بی آئی ایس پی وظیفہ میں کمی ہوگی)۔
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے کہا، “جیسا کہ ہم بی آئی ایس پی کی امدادی رقم میں کمی کی حمایت نہیں کریں گے، اسی طرح ہم اس معاملے میں بھی کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کرسکتے۔مزید برآں، ہم توقع کرتے ہیں کہ گھریلو صارفین پر اہم اضافی بوجھ ریکوری کی شرح کو بہت زیادہ متاثر کرے گا، جس کے نتیجے میں بالآخر بڑے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی۔
آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کے بھاری بجلی کے ٹیرف اس کے بجلی کے شعبے کی بلند قیمتوں کی عکاسی کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ معاہدوں پر آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے ذریعے ان اخراجات (جو حریفوں سے زیادہ ہیں) کو کم کرنا، کیپٹو پاور کا خاتمہ، چوری اور لائن لاسز کو دور کرنا اور ڈسکوز کی نجکاری ایک اہم ترجیح ہونی چاہئے، اور یہ کم ٹیرف کی طرف واحد پائیدار ذریعہ ہے. نئی تجویز پر آئی ایم ایف کا رد عمل ابھی موصول نہیں ہوا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024