شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کی میزبانی باری باری کی جاتی ہے؛ تاہم پاکستان نے اپنا سفارتی مقام بلند کرنے کیلئے اس موقع کا بہترین استعمال کیا، کراچی میں حالیہ دہشتگرد حملے کے دوران 2 چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں غیر ملکی شہری مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں غیر ملکیوں پر مسلسل حملوں اور پاکستانی طالبان کی جانب سے سرحد پار بڑھتے حملوں سے بھی پاکستان کے سلامتی کے مسائل واضح ہو گئے ہیں۔
حکام نے اس بڑھتی ہوئی سیکورٹی کی ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 15 اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاجی کال کے ممکنہ خطرے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے، یہ کال اس وقت تک کی ہے جب تک جیل میں قید پی ٹی آئی بانی عمران تک ڈاکٹروں یا خاندانی رکن کو رسائی نہ دی جائے جو گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے نہیں دی جارہی۔ تاہم یہ مطالبہ نہ تو غیر آئینی ہے اور نہ ہی جیل کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ اس لیے احتجاج کی کال کو ملتوی کرنے پر اصرار کرنا قانونی اعتبار سے بلا جواز ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ مکمل سیکورٹی کیلئے وفاقی دارالحکومت کا تین دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن ضروری تھا جو کہ ایس سی او سمٹ کے دورانیے سے ایک دن زیادہ ہے۔ اس نے تمام بڑے سرکاری وزارتوں/محکموں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور تمام عوامی و نجی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔
مزید برآں حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے آئین کے آرٹیکل 245 کا استعمال کرتے ہوئے سیکورٹی فراہم کی جس کی وضاحت کی ضرورت ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معشیت کو نقصان اٹھانا پڑا جس کیلئے نقصانات پہلے سے ہی ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔
گزشتہ منگل کو سابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ وزارت خزانہ کے اکنامک ونگ نے وفاقی دارالحکومت میں ہڑتال اور جھڑپوں کی وجہ سے ہونے والے مجموعی نقصان کا تخمینہ 190 ارب روپے یومیہ لگایا ہے جس میں اسلام آباد میں 0.8 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے منفی اثرات میں مجموعی منفی اثرات میں جی ڈی پی میں ، ٹیکس آمدنی میں نقصان، قانون نافذ کرنے کے اخراجات، کاروبار اور برآمدات کے نقصانات، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بھی منفی اثرات شامل ہیں۔
امکان ہے کہ وزیر خزانہ حزب اختلاف کے احتجاج کی وجہ سے دارالحکومت کی بندش کا حوالہ دے رہے تھے۔ تاہم اس بار یہ حکومت ہی تھی جس نے دارالحکومت کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور اس تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی غیر ملکی معزز مہمان کے دورے کے پیش نظر شہروں کی بندش کا رحجان بڑھ رہا ہے جس کے معیشت اور لوگوں کے نقل و حرکت کے حقوق پر بڑے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اگرچہ اس سال دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہےجس کی وجہ سے سیکورٹی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم اسلام آباد کے ڈی چوک میں ممکنہ احتجاج کی کال کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلل کو کم سے کم کرنے کے لئے، احتجاج کیلئے متبادل جگہ کے اعلان کے ساتھ ساتھ اسمبلی سے دور ایک جگہ پر ایک بین الاقوامی کنونشن سینٹر تعمیر کرنا مناسب ہوسکتا ہے۔