پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمیعت علماء اسلام (ف) اور اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ متوقع آئینی پیکج کی حمایت کریں، بصورت دیگر آئینی ترمیم اپنی سیاسی طاقت پر کرنے انتباہ دیا، حالانکہ انہوں نے پہلے کہا تھا کہ اس پراتفاق رائے حاصل کرلیا گیا ہے۔
تاہم حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر قانون سازی کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسلام آباد جا رہا ہوں اور آخری کوشش کر رہا ہوں کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو مجبور کیا جائے کہ جب بھی یہ اجلاس ہو تو غیر متنازعہ طریقے سے ووٹ ڈالیں۔
بصورت دیگر انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر اپوزیشن اتنے سمجھوتوں کے بعد بھی ہمارا ساتھ نہیں دے سکی تو میں مسلم لیگ (ن) اور ان کے اضافی ارکان کے ساتھ بھاری اکثریت سے قانون سازی کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔
اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ مساوی نمائندگی کے لئے ایک فورم تشکیل دیا جائے۔ میں حزب اختلاف کے ساتھ ایسا کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر اس نے میرے لئے دروازے بند کر دیے تو مجھے اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس راستے پر چلنا پڑے گا جو متنازعہ ہے جس سے میں نے ہمیشہ بچنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ بالا ترامیم کو منظور کرنے کا ”متنازعہ“ طریقہ ہوگا اور ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا جبکہ آئینی بنچ پر بھی تنازعہ کھڑا ہوگا۔
تاہم بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو انتظار میں رکھا گیا ہے اور وہ مزید انتظار نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا مسودہ پیش کریں گے اور اس پر دیگر تمام جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
بصورت دیگر، انہوں نے عہد کیا کہ وہ اس مسودے کو ”حکومت کی دو تہائی اکثریت“ سے منظور کرائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ چاہے جو بھی کہا جائے، بنچ ہو یا عدالت، پیپلز پارٹی مساوی نمائندگی کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کا مطالبہ کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ 18 ویں ترمیم کی طرح ترامیم اتفاق رائے سے منظور کی جائیں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے فضل الرحمان اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔
اب یہ سیاسی جماعتوں کے لئے ایک امتحان ہے۔ ہم نے جو کچھ بھی ممکن تھا کیا،’’ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے بہت سے مطالبات کو قبول کر لیا ہے اور پوچھا ہے کہ وہ مزید کیا کرسکتے ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ قانون آج اور فوری طور پر نافذ کیا جائے لیکن میں اکیلے یہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ (ن) اور پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کرایسا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے وہ سب کچھ کیا جو میرے لئے ممکن تھا. میں نے سمجھوتہ کیا اور درمیانی راستہ ڈھونڈ لیا، میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں؟’’
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024