اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے گورنر کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2024 رپورٹ جاری کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2024 میں اہم میکرو اکنامک اشاریوں میں دو مشکل سال کے بعد بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
یہ رپورٹ اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956ء (جنوری 2022ء میں ترمیم شدہ) کے سیکشن 39 (1) کے تحت شائع کی جاتی ہے جس کا تقاضہ ہے کہ گورنر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو سالانہ رپورٹ پیش کرکے بینک کے اہداف، زری پالیسی کے طرزِ عمل، معیشت کی حالت اور مالی نظام کے بارے میں آگاہی فراہم کریں۔
رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ مالی سال 24ء میں صارف اشاریہ قیمت ملکی مہنگائی (این سی پی آئی) میں کمی واقع ہوئی، خاص طور پر مالی سال کی دوسری ششماہی میں، جس کی وجہ مسلسل سخت زری پالیسی موقف، مالی استحکام اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ رجحانات بیرونی کھاتوں کے دباؤ میں کمی کے ساتھ واقع ہوئے، جس سے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا، ایکسچینج کمپنیوں سمیت بازارِ مبادلہ میں اصلاحات کے نتیجے میں بازار مبادلہ میں استحکام آیا۔ اس سال زراعت کی وجہ سے جی ڈی پی کی معتدل نمو بھی ہوئی جسے بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں چھوٹی لیکن بتدریج بحالی سے سہارا ملا جبکہ مالی سال 23ء میں اس میں تیزی سے سکڑاؤ آیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مالی سال 24ء کی پہلی سہ ماہی کے بعد ہی سے میکرو اکنامک حالات میں، خاص طور پر مہنگائی کے منظر نامے میں بہتری کے ابتدائی اشارے ملنے لگے تھے، تاہم اسٹیٹ بینک نے محتاط طرزِ عمل اپنایا اور قبل از وقت زری نرمی لانے سے گریز کیا۔
اس کے بجائے، اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24ء کے تقریباً اختتام تک پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھا، تاکہ مہنگائی کے دباؤ میں جمود کے خطرات کو ختم کیا جا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس موقف کو مالیاتی پالیسی کو سخت زری پالیسی موقف کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا، چنانچہ 17 سال میں پہلی بار پرائمری سرپلس دیکھا گیا جس نے سرکاری قرضوں میں جی ڈی پی کے لحاظ سے نمایاں کمی میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔
مالی سال 2024ء کی دوسری ششماہی کے دوران مہنگائی میں کمی کو شرح مبادلہ کے استحکام سے بھی مدد ملی، جس کی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا 13 سال کی پست ترین سطح پر آنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ 3.0 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ (ایس بی اے) تھا جس نے جون 2023ء کے بعد سے مجموعی میکرو اکنامک ماحول کو بہتر بنایا.
اس کے علاوہ، ایس بی اے کے بعد کثیر فریقی اور دوطرفہ بیرونی قرض دہندگان کی طرف سے سرکاری سطح پر رقوم کی آمد کے ساتھ دوست ممالک سے ڈپازٹس جمع کرانے؛ اور توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حکومتی فیصلے نے مارکیٹ کے احساسات کو تقویت دی اور شرح مبادلہ کے استحکام میں کردار ادا کیا۔ معیشت کو سازگار عالمی اقتصادی ماحول، خاص طور پر اجناس کی کم قیمتوں اور عالمی جی ڈی پی کی قدرے بلند نمو کے مثبت اثرات سے بھی فائدہ ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال کی دوسری ششماہی کے دوران عمومی اور قوزی مہنگائی دونوں میں مسلسل کمی نے زری پالیسی کمیٹی کو جون 2024ء میں پالیسی ریٹ 150 بیسس پوائنٹس کم کرکے 20.5 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کی۔ یہ کمی 33 ماہ میں پہلی بار کی گئی تھی، جس سے سخت زری پالیسی موقف میں بتدریج نرمی کا آغاز ہوا۔
مالی نظام کا استحکام برقرار رکھنے کے اسٹیٹ بینک کے مقصد کے حوالے سے گورنر کی سالانہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بحیثیتِ مجموعی مالی شعبے نے مہنگائی کے کم لیکن بلند دباؤ، اور قرضوں اور مالی خدمات کی مسلسل فراہمی کے حالات میں لچک کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلند شرح سود، اور مالی شمولیت اور ادائیگیوں کی ڈجیٹلائزیشن کے لیے اسٹیٹ بینک کی کوششوں کی وجہ سے بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں قابل ذکر اضافہ ہوا ۔ اسی طرح، سخت زری پالیسی موقف کے باوجود بینکاری شعبے کے قرضوں کی نادہندگی قابو میں رہی، جبکہ اس شعبے کی شرح کفایت سرمایہ(سی اے آر)، اثاثوں کا معیار اور سیالیت کے اظہاریوں میں بھی بہتری آئی، جس سے مالی شعبے کو مجموعی مالی استحکام برقرار رکھنے میں مدد ملی۔
گورنر کی سالانہ رپورٹ مالی سال24ء میں اسٹیٹ بینک کے تیسرے مقصد یعنی حکومت کی معاشی پالیسی کو سہارا دینے کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر ہے جو قیمتوں کے استحکام اور مالی استحکام کے حصول کے لیے مرکزی بینک کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بالخصوص رپورٹ میں مالی شمولیت کی قومی حکمت عملی 2018ء تا 2023ء کے کامیاب نفاذ اور اس کے اگلے ورژن کی تیاری کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کا مقصد 2028ء تک مالی شمولیت اور ڈجیٹل مالی خدمات کو مزید وسعت دینا ہے
اس کے ساتھ ساتھ، اسٹیٹ بینک ’برابری پر بینکاری‘ (بی او ای) پالیسی پر مسلسل توجہ دے کر مالی شعبے میں صنفی شمولیت کے لیے مدد دے رہا ہے، جسے اب بی او ای اسکور کارڈ کے ذریعے ٹریک کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک بہتر اور باخبر پالیسی سازی کو یقینی بنانے کے لیے، مالی شمولیت اشاریہ بھی تشکیل دے رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسلامی بینکاری کی ترقی پر مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے ، جس میں مالی سال 24ء کے دوران اثاثوں اور ڈپازٹس کے لحاظ سے نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
دورانِ سال اسٹیٹ بینک نے مزید 12 شریعہ معیارات کو اپنایا تاکہ تعمیلی فریم ورک مستحکم ہو اور ملک میں اسلامی بینکاری کو شریعہ روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان کے علاوہ ،سود کے حوالے سے وفاقی شریعہ عدالت کے فیصلے کے تحت اسلامی بینکاری کو مزید فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات بھی کیے گئے۔
رپورٹ میں مالی شعبے کی ڈیجیٹائزیشن کے تناظر میں اسٹیٹ بینک کی’فرد سے دکاندار کو’’راست‘ سہولت کے آغاز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔امید ہے کہ یہ سہولت کیو آر کوڈ، ’راست الیاس ، آئی بی اے این اور ’ادائیگی کی درخواست‘ کے ذریعے ادائیگیوں کو فعال کر کے پورے پاکستان میں کاروباری لین دین کی ڈیجیٹائزیشن کو تیز کرے گی۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں عرب مانیٹری فنڈ (اے ایم ایف) کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کرنے کی اہم کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ راسط ادائیگی کے نظام کو اے ایم ایف کے سرحد پار ادائیگی کے نظام بونا کے ساتھ ضم کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں عرب مانیٹری فنڈ (اے ایم ایف) کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی اہم کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت راست ادائیگی کے نظام کو ’بُونا‘ سے مربوط کیا جائے گا۔ ’بُونا‘ اے ایم ایف کا بیرونِ ملک ادائیگی کا نظام ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024