یحییٰ سنوار نے موت سے قبل ڈرون پر چھڑی پھینکی

18 اکتوبر 2024

اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو کے مطابق حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو ایک اسرائیلی منی ڈرون نے اس وقت ٹریک کیا جب وہ جنوبی غزہ میں ایک عمارت کے ملبے میں اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔

جیسے ہی ڈرون یحییٰ سنوار کے قریب گیا ، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ڈرون پر لاٹھی پھینک رہے ہیں ۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی تلاش کے بعد یحییٰ سنوار کو ہلاک کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کو ابتدائی طور پر اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ انہوں نے بدھ کو فائرنگ کے تبادلے کے بعد اپنے ملک کے نمبر ایک دشمن کو مار ڈالا ہے ۔

فوج نے جمعرات کو بتایا کہ دانتوں کے ریکارڈ، فنگر پرنٹس اور ڈی این اے ٹیسٹ سے یحییٰ سنوار کی موت کی حتمی تصدیق کے بعد انٹیلی جنس سروسز آہستہ آہستہ اس علاقے کو محدود کر رہی ہیں جہاں وہ کام کر سکتے تھے۔

دیگر رہنماؤں کے برعکس یحییٰ سنوار کو مارنے کیلئے جو کارروائی کی گئی نہ تو وہ منصوبہ بند اور ہدفی حملہ تھا اور نہ ہی کسی ایلیٹ کمانڈو کے ذریعے کی گئی کارروائی تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ یحییٰ سنوار کو بسلاچ بریگیڈ کے انفنٹری فوجیوں نے پایا، جو ایک یونٹ ہے جو عام طور پر مستقبل کے یونٹ کمانڈروں کو تربیت دیتا ہے۔ فوجی بدھ کو جنوبی غزہ کے علاقے تال السلطان میں ایک علاقے کی تلاشی لے رہے تھے، جہاں ان کا خیال تھا کہ حماس کے سینئر ارکان موجود ہیں۔

فوجیوں نے 3 مشتبہ افراد کو عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے دیکھا اور فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اس دوران یحییٰ سنوار ایک تباہ شدہ عمارت میں فرار ہوگئے۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق عمارت پر ٹینکوں کے گولے اور میزائل بھی داغے گئے۔

جمعرات کو فوج نے ایک منی ڈرون کی فوٹیج جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ یحییٰ سنوار بری طرح زخمی ہے اور وہ کرسی پر بیٹھے تھے ،ان کا چہرہ ایک کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ڈرون پر چھڑی پھینکنے کی کوشش کررہے تھے ۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے کہا کہ اس مرحلے پر سنوار کی شناخت صرف ایک جنگجو کے طور پر ہوئی تھی لیکن فوجیوں نے اندر داخل ہوکر اسے ایک ہتھیار، ایک فلک جیکٹ اور 40 ہزار شیکل (10,731.63 ڈالر) کے ساتھ پایا۔

انہوں نے ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور ہماری افواج نے اسے مار ڈالا۔

حماس نے خود کوئی تبصرہ نہیں کیا ، لیکن گروپ کے ذرائع نے کہا کہ انہوں نے جو اشارے دیکھے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سنوار کو واقعی اسرائیلی فوجیوں نے شہید کردیا ہے ۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’گزشتہ سال اور آئی ایس اے کی جانب سے کی جانے والی درجنوں کارروائیوں اور حالیہ ہفتوں میں اس علاقے میں جہاں یحییٰ سنوار کو مارا کیا گیا تھا، نے یحییٰ سنوار کی آپریشنل نقل و حرکت کو محدود کردیا کیونکہ فورسز نے ان کا تعاقب کیا۔

اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں، سنوار جو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بڑے ذمہ دار تھےجنہوں نے غزہ میں جنگ شروع کی، نے ایسا لگتا ہے کہ ٹیلیفون اور دیگر مواصلاتی آلات کا استعمال بند کر دیا تھا۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ غزہ کے نیچے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران حماس کی جانب سے کھودے گئے سرنگوں کے وسیع نیٹ ورک میں چھپے ہوئے تھے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل کی جانب سے سنوار کے تعاقب نے انہیں ’مفرور کی طرح کام کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے انہیں کئی بار مقامات تبدیل کرنے پڑے۔‘

اسرائیلی حکام، جو سنوار کو ایک بے رحم اور پرعزم دشمن کے طور پر جانتے تھے، طویل عرصے سے فکر مند تھے کہ انہوں نے خود کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے غزہ میں انسانی ڈھال کے طور پر اب بھی رکھے گئے 101 اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالیوں میں سے کچھ کے ساتھ خود کو گھیر لیا ہے۔

تاہم بدھ کوجب وہ بالآخر پھنس گئے تو قریب ہی کوئی یرغمالی نہیں ملا، حالانکہ ہاگری کا کہنا تھا کہ اس کے ڈی این اے کے نمونے اس سرنگ سے چند سو میٹر کی دوری پر موجود ہیں جہاں اگست کے آخر میں حماس نے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کو پھانسی دی تھی۔

Read Comments