اسٹیٹ بینک کو شرح نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کی توقع، عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں تبدیلی خطرہ قرار

  • توانائی کے شعبے میں نااہلی کے نتیجے میں گردشی قرضے جمع ہوئے، مرکزی بینک کی سالانہ رپورٹ
اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2024

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے مالی سال 2025 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے،جو حکومت کے ہدف 3.6 فیصد سے کم ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مالی سال 24 میں پاکستان کے میکرو اکنامک حالات میں بہتری مالی سال 25 میں بھی اسی رفتار سے جاری رہنے کی توقع ہے، جبکہ عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں تبدیلی خطرہ قرار دی گئی ہے۔

مرکزی بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال 24 میں پاکستان کے میکرو اکنامک حالات میں بہتری آئی، استحکام کی پالیسیوں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کامیاب شمولیت، غیر یقینی صورتحال میں کمی اور سازگار عالمی معاشی ماحول کی مدد سے شرح نمو 2.5 فیصد تک پہنچ گی۔

سالانہ رپورٹ 24-2023 (پاکستان کی معیشت کی حالت) میں کہا گیا ہے کہ “مقامی زرعی پیداوار میں اضافے نے بھی سال کے دوران نسبتا بہتر میکرو اکنامک نتائج میں اہم کردار ادا کیا۔

رپورٹ میں گندم اور چاول کی ریکارڈ فصل اور کپاس کی پیداوار میں بہتری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مالی سال 24 میں حقیقی جی ڈی پی میں زراعت کی قیادت میں معتدل بحالی ریکارڈ کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افراط زر مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم ہو کر جون 2024 میں 12.6 فیصد رہ گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 24 کی آخری ششماہی میں ہیڈ لائن اور بنیادی افراط زر میں مسلسل کمی نے اسٹیٹ بینک کے لیے جون 2024 میں پالیسی ریٹ کو 150 بیسس پوائنٹس کم کرکے 20.5 فیصد کرنے کی گنجائش پیدا کردی۔

ساختی مسائل بدستور برقرار ہیں

اسٹیٹ بینک اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے متعدد ساختی رکاوٹیں مسلسل چیلنجز کا باعث بن رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم بچت، ناسازگار کاروباری ماحول، تحقیق و ترقی کی کمی اور کم پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی معیشت کی ترقی کی صلاحیت کو مسلسل متاثر کر رہی ہے۔

رپورٹ میں خاص طور پر ملک کے توانائی کے شعبے میں دیرینہ نااہلیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کے نتیجے میں گردشی قرضے جمع ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ حکومت نے قیمتوں میں خاطر خواہ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے توانائی کے شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا شروع کر دیا ہے تاہم سیکٹرل پالیسی اور ریگولیٹری اصلاحات متعارف کروا کر ان کوششوں کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اصلاحات سرکاری ملکیت والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) میں نااہلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں جو مالی وسائل پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں، مالی وسائل پہلے ہی کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کی وجہ سے محدود ہیں۔

آئی ایم ایف کا مالی سال 25 میں بیرونی بفرز کو مضبوط بنانے کا پروگرام

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری اور کثیر الجہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان کی جانب سے بیرونی ترسیلات زر کی وصولی سے مالی سال 25 میں بیرونی بفرز کو مزید تقویت ملنے کی توقع ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کو سازگار عالمی معاشی ماحول سے فائدہ ہونے کی توقع ہے کیونکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں افراط زر کم ہو رہا ہے جبکہ عالمی اقتصادی نمو مستحکم رہنے کی توقع ہے۔

اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی تناؤ کی وجہ سے عالمی سطح پر کموڈٹی کی قیمتوں میں اضافے کا خطرہ موجود ہے لیکن کموڈٹی کی قیمتیں بدستور کم ہیں۔ یہ عوامل مالی سال 25 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 0 سے 1 فیصد کے دائرے میں رکھیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ اتار چڑھاؤ سے پتہ چلتا ہے کہ اوسط افراط زر مالی سال 25 میں 11.5 سے 13.5 فیصد کی سابقہ تخمینہ حد سے نیچے آ جائے گا، جو حکومت کے سی پی آئی ہدف 12 فیصد کے مطابق ہے۔

اس کے علاوہ مسلسل مالی استحکام سے بھی افراط زر میں مزید کمی کی توقع ہے۔

Read Comments