وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت کہانی قرار دیا ہے۔
گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسا مسئلہ ایک ایسے واقعہ سے پیدا کیا گیا ہے جو پہلے کبھی موجود نہیں تھا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ مبینہ ریپ کا واقعہ من گھڑت کہانی تھی جس کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں، وائرل ویڈیو میں لڑکی ریپ کا شکار نہیں تھی بلکہ بری سیاست اور سازش کا شکار تھی۔
مبینہ ریپ کے واقعے کے خلاف شہر میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ کچھ مظاہرین طالب علم بھی نہیں تھے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اپوزیشن پارٹی (پی ٹی آئی) نے انہیں لانچ کیا۔ “جو بھی اس کے پیچھے تھی، میں انہیں نہیں بخشوں گی۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے طالب علموں کو اکسایا اور لڑکی اور اس کے اہل خانہ کی بے عزتی کی اور ہم نے ان کے اکاؤنٹس کا سراغ لگا لیا ہے۔ ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ مسئلہ پی ٹی آئی کا ہے نہ کہ سوشل میڈیا کا۔
مریم نواز نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے تنخواہ دار صحافی طلبہ کو بغاوت پر اکسانے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ لڑکی کے گھر والوں نے ان سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ اس کہانی کو گھڑنے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹ کی بنیاد پر پنجاب بھر میں افراتفری پھیلائی جا رہی ہے، خاص طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دوران جب غیر ملکی شخصیات پاکستان کا دورہ کر رہی تھیں۔ جان بوجھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے طلبہ کو گمراہ کرنے اور اکسانے کا منصوبہ بنایا گیا۔
اس حوالے سے انہوں نے پی ٹی آئی پر الزام عائد کیا کہ وہ افواہوں کو ہوا دے رہی ہے اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کالج کے تہہ خانے میں تالے نہیں تھے، ریسکیو 1122 اپنے دعوؤں کے باوجود کبھی نہیں گیا اور یہاں تک کہ گواہ نے بھی کہا کہ اس نے واقعے کے بارے میں کسی اور سے سنا تھا۔ میں نہ صرف وزیر اعلیٰ ہوں بلکہ میں خواتین کی نمائندگی بھی کرتی ہوں، یہ میری ریڈ لائن ہے۔ اگر ریپ ہوتا، تو میں کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کارروائی کر لیتی۔
مریم نواز نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس جماعت نے ایک طالبہ کی عصمت دری کے بارے میں بے بنیاد خبریں پھیلا کر پنجاب حکومت کے خلاف سازش کی اور آخر کار وہ اسپتال میں انتقال کر گئی۔
انہوں نے کہا کہ اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اپنے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کی حمایت حاصل کرنے میں بار بار ناکام ہونے کے بعد اس پارٹی (پی ٹی آئی) نے حکومت کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتی۔ اگر ملک ترقی کرتا ہے تو اس کی مقبولیت کو دھچکا لگے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 10 اکتوبر کو پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک نجی کالج میں ایک لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’مخبر نے اس لڑکی کا نام بھی لیا اور کہا کہ یہ واقعہ 10 اکتوبر کو پیش آیا تھا۔ لیکن لڑکی، جس کا نام لیا گیا تھا، کو 2 اکتوبر کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا کیونکہ وہ فرش پر گر گئی تھی جس کی وجہ سے اسے چوٹیں آئی تھیں۔
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ انہوں نے لڑکی کے والد سے بات کی تھی جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ میڈیا میں جو واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے شکایت درج کی گئی ہے، پنجاب پولیس لڑکی کی تلاش کر رہی ہے۔ انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ جرم کو چھپانے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج غائب کردی گئی تھی۔ اس واقعہ کا کوئی گواہ نہیں تھا، کیونکہ یہ نہیں ہوا تھا. انہوں نے اس موقع پر میڈیا کے مختلف سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024