پالیسی سازی کا معیار واضح طور پر متعین مختصر، درمیانے اور طویل مدتی اہداف قائم کرنا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا توانائی کا شعبہ طویل عرصے سے عجلت پر مبنی رد عمل کا شکار رہا ہے اور حکومت جہاں حکومت ہر بار ایک مسئلے کا حل نکالتی ہے تو دوسرا ابھرتا ہے۔ یہ ایک ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔
کافی کوششوں کے بعد حکومت نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے پہلے گروپ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے ہیں تاکہ ان کے بجلی کے منصوبوں کی بندش ممکن ہوسکے۔ 2002 کے دور کے آئی پی پیز کے دیگر گروپ بھی جلد آنے والے ہیں۔ اگرچہ یہ امکان ہے کہ نئے آئی پی پیز بھی اسی طرح کی تبدیلیوں سے گزریں گے لیکن اچانک ادائیگی روکنے کی اطلاعات تشویش ناک ہیں۔
سرمایہ کاروں کے جذبات سے قطع نظر عوام کے لئے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لئے یہ بے مثال اصلاحات نافذ کی جا رہی ہیں۔ تاہم آئی پی پیز پر شدید توجہ دیگر آسان مواقع جیسے چھتوں پر سولر پینل سے توجہ ہٹا رہی ہے۔
نیٹ میٹرنگ تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور بہت سے اہل صارفین، بشمول صنعتیں، توانائی میں خودمختاری حاصل کرنے کے لیے نظام نصب کر رہے ہیں۔ حکومت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تمام صارفین کے لئے بجلی کی مجموعی نرخ کو کم کرنے کے اقدامات کے ساتھ سولر انرجی کی کوششوں کو متوازن کرے۔
اگرچہ بجلی کے بڑے منصوبے معطل کرنے سے بچت پیدا ہو رہی ہے تاہم اگر بڑی صنعتیں سولر پینل پر منتقل ہو جائیں تو سولر انرجی میں تیز رفتاری اس کوشش کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ متعدد رپورٹس صنعتی سولر تنصیبات میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں اور یہ تبدیلی خوشحال رہائشی علاقوں میں بھی ہوسکتی ہے جس سے گرڈ کی کھپت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
یہ بات سولر انرجی کو فروغ دینے کی مخالفت کا اشارہ نہیں ہے بلکہ زیادہ سمجھداری سے ضابطے کی ضرورت کا مطالبہ کرتی ہے۔ آئیے اس نقطہ کو واضح کرنے کے لیے کچھ بنیادی حساب کریں۔ سولر پینلز اور لیتھیم آئن بیٹریاں اب زیادہ سستی ہو رہی ہیں، جس سے صارفین کو ان حلوں کا انتخاب کرنے کی ترغیب مل رہی ہے۔
کراچی میں ہونے والے ایک غیر رسمی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 5 کلو واٹ کی دو اسٹوریج بیٹریوں کے ساتھ 10 کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت تقریبا 1.5 ملین روپے ہے، جس میں تمام اخراجات بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال بیٹری کی قیمتیں تقریبا آدھی ہو گئی ہیں ، جس کی وجہ سے پیک لوڈ معاشی طور پر قابل عمل بن گیا ہے۔
یہ نظام کراچی میں اوسطاً روزانہ تقریباً 42 یونٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے جسے نیٹ میٹرنگ یا خود کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اس کا سالانہ تخمینہ لگائیں تو یہ تقریباً 800,000 روپے کی بچت کے مساوی ہے جس کی بدولت لگایا گیا سرمایہ 2 سال سے بھی کم مدت میں واپس مل سکتا ہے بلکہ بڑے سسٹم میں اس کی مدت 2 سال سے بھی کم ہے۔
پینلز استعمال کرنے کی مدت تقریبا 20 سال ہوتی ہے لہذا ایسا لگتا ہے کہ سولر پینل کا ایک صارف اپنی سرمایہ کاری پر 10 گنا فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ بیٹری کی زندگی 5000 سائیکلز کی بتائی گئی ہے۔ تاہم اگر ہم 4000 سائیکلز پر بھی غور کریں تب بھی اس کی مدت 10 ہوگی جو بیٹری کی سرمایہ کاری پر 5 گنا منافع دیتی ہے۔
جیسا کہ بیٹریوں کی قیمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں، عالمی رجحانات کے مطابق خریداری کی کم قیمتیں بھی استعمال میں اضافے سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ بات کم آمدنی والے بجلی صارفین پر لاگت کی منتقلی کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جو کراس سبسڈیز پر انحصار کرتے ہیں تاکہ نرخوں کو کم رکھا جاسکے۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں پر یوٹرن لینا ہوگا بلکہ اسے چیزوں کو مجموعی طور پر دیکھنا ہوگا تاکہ ان صارفین کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے جو شاید گرڈ پر انحصار کرتے رہیں۔
جبکہ بڑے پروجیکٹس پر توجہ دی جا رہی ہے ٹیرف کا تعین کرنے کے عمل پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سولر انرجی کو مارکیٹ میں زیادہ پائیداری سے داخل ہونے کی اجازت دی جا سکے۔ پاکستان کا توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کا مشن اچیلس کی زبردست طاقت کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن مناسب توجہ نہ دی گئی تو نظام کو گرانے کیلئے ایک چھوٹا سا تیر ہی اس کی ایڑی پر کافی ثابت ہوسکتا ہے۔