بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کی کونسل (سی ایچ جی) کے 2 روزہ اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچ گئے۔
تقریبا ایک دہائی میں کسی بھی بھارتی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔
پاکستانی حکام نے بھارتی وزیر خارجہ کا استقبال کیا۔
دورے پر آئے بھارتی عہدیدار سی ایچ جی اجلاس کے موقع پر پاکستان کے اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔
تاہم وہ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران میزبانوں کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر بات چیت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے میڈیا کی بہت زیادہ دلچسپی ہوگی لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک کثیر الجہتی تقریب کے لئے ہوگا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے رواں ماہ کے اوائل میں نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں پاک بھارت تعلقات پر بات کرنے کے لیے وہاں نہیں جا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک اچھا رکن بننے کے لیے وہاں جارہا ہوں لیکن چونکہ میں شائستہ اور مہذب شخص ہوں اس لیے میں اس کے مطابق برتاؤ کروں گا’۔
جے شنکر سے قبل آخری مرتبہ دسمبر 2015 میں کسی بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جب اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج وفاقی دارالحکومت میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچی تھیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات خاص طور پر اگست 2019 کے بعد سے تنزلی کا شکار ہیں جب بھارتی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت اور خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے مبینہ طور پر متنازع قانون منظور کیا تھا۔
اس کے رد عمل میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے اسی ماہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی، دوطرفہ تجارت کی معطلی، دوطرفہ انتظامات کا جائزہ لینے اور معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کی منظوری دی تھی۔
قبل ازیں دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا الیاس محمود نظامی نے نور خان ائربیس پر بھارتی وزیر خارجہ کا استقبال کیا۔
بعد ازاں انہوں نے وزیراعظم آفس میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 26 اکتوبر 2023 کو بشکیک میں ہونے والے گزشتہ اجلاس میں 2023-24 کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سی ایچ جی کی صدارت سنبھالی تھی جہاں اس وقت کے عبوری وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ملک کی نمائندگی کی تھی۔
دریں اثنا شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک، مبصر اور مکالمے کے شراکت دار ممالک کے مندوبین منگل کو سی ایچ جی اجلاس کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت پہنچے۔ متعلقہ عہدیداروں نے ان کا استقبال کیا۔
دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ جے شنکر کا طیارہ مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے 3 بجے سے کچھ پہلے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس پر اتراجب سرکاری ٹی وی نے انہیں میزبان وفد سے گلدستہ وصول کرتے ہوئے دکھایا جس میں کوئی سینئر وزیر شامل نہیں تھا۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان دیرینہ سیاسی تناؤ کے ساتھ ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں اور 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک تین جنگیں اور متعدد چھوٹی جھڑپیں لڑچکے ہیں۔
2019 کے بعد سے تعلقات خاص طور پر کشیدہ ہیں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی محدود خودمختاری ختم کر دی تھی۔
ہمالیہ کا یہ خطہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے لیکن دونوں ہی اس پر مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہیں۔
مودی کے 2019 کے اقدام کا پورے بھارت میں جشن منایا گیا لیکن پاکستان نے دوطرفہ تجارت معطل کردی اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کردیا۔
بھارتی حکومت کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ رواں ماہ جے شنکر کے دورے کا ایجنڈا شنگھائی تعاون تنظیم کے شیڈول پر سختی سے عمل کرے گا جس میں تجارتی، انسانی اور سماجی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اسلام آباد حالیہ ہفتوں میں دارالحکومت میں شہری بدامنی اور پاکستان بھر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد کانفرنس کے دوران استحکام اور سلامتی کی تصویر پیش کرنے کا خواہاں ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) چین اور روس کی جانب سے قائم کردہ 10 ممالک کا بلاک ہے جنہوں نے اس اتحاد کو وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے اور خطے میں اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بلاک دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کے تقریبا 30 فیصد کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گوا گئے تھے جہاں ان کے اور جے شنکر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔
سنہ 2016 کے بعد کسی سینئر پاکستانی عہدیدار کا اپنے مشرقی ہمسایہ ملک کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا لیکن دونوں وزرائے خارجہ نے ون آن ون ملاقات نہیں کی۔
قبل ازیں بیلاروس اور کرغزستان کے وزرائے اعظم سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے۔
وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے نور خان ایئربیس پر کرغز وزیر اعظم اور کابینہ کے چیئرمین عقیل بیک جاپاروف کا استقبال کیا۔