فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کو اس وقت ٹیکس چوری اور ٹیکس فراڈ کی وجہ سے 3.4 ٹریلین روپے کے ٹیکس خسارے کا سامنا ہے، حکومت نے اس مسئلے کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کی ہے اور آنے والے ہفتوں میں اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وزیر مملکت برائے ریونیو اور چیئرمین ایف بی آر کے ساتھ جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں مختلف معاشی شعبوں میں سیلز ٹیکس چوری سے متعلق اس تحقیق پر بریفنگ دی گئی۔
پریس کانفرنس کے بعد فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیکس چوری اور ٹیکس فراڈ کی وجہ سے 3400 ارب روپے کے ٹیکس کا خلا ہے۔
بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس پر آنے والے ہفتوں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ کئی رجسٹرڈ ادارے بھی اپنی آمدنی کی غلط رپورٹنگ، اضافی ان پٹ ٹیکس کلیم ، اور جعلی و فلائنگ انوائسس کے استعمال میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلز ٹیکس بہترین بین الاقوامی طریقوں کے مطابق وی اے ٹی (ویلیو ایڈڈ ٹیکس) موڈ میں جمع کیا جاتا ہے، اس طریقہ کار کے تحت خریداروں سے سیلز ٹیکس کی وصولی کے لئے کاروباری اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے تاہم مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس اعتماد کو بڑے پیمانے پر توڑا جا رہا ہے۔
پریس نوٹ کے مطابق وزیر خزانہ نے لوہے اور اسٹیل، سیمنٹ، مشروبات، بیٹریوں اور سیمنٹ کے شعبوں سے متعلق مطالعے کے نتائج سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ تمام کاروباری شعبوں میں بے ضابطگیاں موجود ہیں، یہ بھی دیکھا گیا کہ بیشتر ادارے صنعتی بینچ مارک اور بہترین صنعتی طریقوں سے زیادہ ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
یہ بھی آگاہ کیا گیا کہ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کے باعث گزشتہ مالی سال کے دوران اقدامات کے نفاذ میں اضافہ کیا گیا جن میں گرفتاریوں، مجرمانہ مقدمات کے اندراج اور رپورٹنگ سسٹم کی بہتری شامل تھی جس کے نتیجے میں مالی سال 23-24 میں تمام شعبوں میں جعلی ان پٹ ٹیکس کے دعوؤں میں نمایاں کمی آئی۔
بیان میں کہا گیا کہ ان کوششوں کے باوجود بڑے پیمانے پر چوری اب بھی موجود ہے۔
نوٹ میں کہا گیا کہ اس چوری کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
چوری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 300،000 مینوفیکچررز میں سے صرف 14 فیصد رجسٹرڈ ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایف بی آر نے پہلے ہی مختلف شعبوں میں ٹیکس فراڈ کے شواہد کی نشاندہی اور شواہد اکٹھے کیے ہیں جن میں بیٹری سیکٹر کے 11 کیسز، آئرن اینڈ اسٹیل سیکٹر کے 897 کیسز اور کوئلے کی خریداری پر جعلی ان پٹ کلیمز سے فائدہ اٹھانے والے 253 کیسز شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا شعبوں سمیت سیلز ٹیکس فراڈ کی وجہ سے فوجداری کارروائی کے لئے بڑی تعداد میں مقدمات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان معاملوں کی سپلائی چین میں شامل افراد نے ان پٹ ٹیکس کے ایڈجسٹمنٹس، ڈیبٹ اور کریڈٹ نوٹس اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے دھوکہ دہی کی ہے اور ریٹرن فائلنگ کے نظام سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ سیلز ٹیکس فراڈ کی مجموعی رقم 227 ارب روپے ہے۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ سیلز ٹیکس فراڈ ایک مجرمانہ جرم ہے جس کی سخت سزاؤں میں بھاری جرمانے اور جرمانے کے علاوہ گرفتاری اور 10 سال تک قید کی سزا شامل ہے۔
یہ کارروائی ٹیکس چور اداروں کے مالکان ، شراکت اروں، کمپنیوں، ایسوسی ایشن، کمپنی کے ڈائریکٹرز، سی ای اوز، سی ایف اوز اور دیگر مجاز افراد کیخلاف کی جائے گی۔
پریس نوٹ میں ایف بی آر کے مطالعے سے حاصل کردہ شعبوں کے نتائج بھی شیئر کیے گئے۔
بیٹری
بیٹری کے شعبے میں 6 فعال کیسز کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس شعبے کے ایک بڑے حصے نے انڈسٹری کے بہترین طریقوں کے مقابلے میں 11 ارب روپے کی اضافی ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا ہے۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جعلی اور مشکوک ان پٹ ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ سیسے کی خریداری پر دعویٰ ہے۔
سیمنٹ
سیمنٹ سیکٹر کے 19 فعال کیسز کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ اس شعبے کے ایک حصے نے مالی سال 23-24 میں صنعت کے بہترین طریقوں کے مقابلے میں 18 ارب روپے کی اضافی ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا تھا۔
تحقیق کے مطابق جعلی اور مشکوک ان پٹ ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ کوئلے کی خریداری پر دعویٰ ہے۔
مشروبات
مشروبات کی تیاری میں مصروف 16 فعال کیسز کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے کچھ کیسز نے مالی سال 23-24 میں اس شعبے کے صنعتی بینچ مارک کے مقابلے میں 15 ارب روپے کی اضافی ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا تھا۔
جعلی اور مشکوک ان پٹ ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ چینی، پلاسٹک اور خدمات کی خریداری پر دعویٰ ہے۔
ٹیکسٹائل
اسپننگ، ویونگ اور کمپوزٹ یونٹس میں کام کرنے والے 228 فعال کیسز کی سیگمنٹل اسٹڈی سے پتہ چلا ہے کہ بہت سے کیسز میں انڈسٹری کے بہترین طریقوں کے مقابلے میں 169 ارب روپے کی اضافی ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جعلی اور مشکوک ان پٹ ٹیکس کا بڑا ذریعہ خدمات ، کیمیکلز ، کوئلہ ، پیکیجنگ اور دیگر غیر متعلقہ مواد کی خریداری پر دعوی ہے۔