حکومت نے 5 نجی کمپنیوں کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے ختم کر دیے ہیں، جن میں ملک کی سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے، جو 2027 تک جاری رہنا چاہیے تھا۔
یہ خبر وزیر توانائی اویس لغاری کے گزشتہ ماہ رائٹرز کو دیے گئے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کے لیے آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کررہی ہے کیونکہ گھرانوں اور کاروباری اداروں کو توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔
سردار اویس احمد خان لغاری نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان معاہدوں کا مطالعہ کیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں کن پلانٹس کی ضرورت ہے اور کن پلانٹس کی ضرورت نہیں ہے۔
”ٹیک یا پے“ کو پاکستان میں ”کیپیسٹی پیمنٹس“ کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں حکومت کو نجی کمپنیوں کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ کتنی بھی بجلی پیدا کریں اور اسے گرڈ میں منتقل کریں۔
سردار اویس لغاری نے کہا کہ دیگر پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مذاکرات بھی شروع ہو چکے ہیں، اور جلد ہی لوگ اپنے ماہانہ بلوں میں اس کا اثر دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا، ”ہمارا مقصد ٹیرف کو کم کرنا ہے۔“
آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی میں 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے ہونے والے اہم عملے کی سطح کے معاہدے میں ان معاہدوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ایک اہم مسئلہ تھی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے پانچ آزاد بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ غور کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کو سالانہ 60 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
وزیراعظم آفس (پی ایم او) کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ٹاسک فورس اور آئی پی پی مالکان کے درمیان معاہدے کی تفصیلات کابینہ میں پیش کی گئیں، جس میں حبکو، لال پیر پاور لمیٹڈ، صبا پاور، روس پاور اور اٹلس پاور کو ان آئی پی پیز میں شامل کیا گیا جن کے معاہدے ختم کیے جائیں گے۔
روس پاور کا قیام بلڈ آپریٹ ٹرانسفر (بی او ٹی) معاہدے کے تحت عمل میں آیا اور حکومت کو ملکیت کی منتقلی کے بعد اس کی نجکاری نجکاری کمیشن کے ذریعے کی جائے گی۔
پی ایم او کے بیان میں کہا گیا کہ باقی 4 آئی پی پیز کی ملکیت ان کے متعلقہ مالکان کے پاس رہے گی اور ان معاہدوں کے خاتمے کے بعد حکومت کی جانب سے کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ملکی معیشت تیزی سے استحکام کی جانب گامزن ہے۔
پہلے مرحلے میں ہم 5 آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں کو ختم کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بجلی شعبے میں دیگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں مزید ترامیم سے ٹیرف میں بتدریج کمی آئے گی۔
اس اقدام سے بجلی صارفین کو سالانہ 60 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، فی یونٹ بجلی کی لاگت میں کمی آئے گی اور مجموعی طور پر قومی خزانے کو 411 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
حبکو اور لال پیر پاور کے حصص کی قیمتوں میں انٹرا ڈے ٹریڈنگ کے دوران کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس رپورٹ کے وقت حبکو کے حصص کی قیمت 0.92 روپے کی کمی سے 112.5 روپے پر ٹریڈ کر رہی تھی جو دن کے دوران 119.4 روپے کی بلند ترین سطح پر تھی۔ لال پیر کے حصص کی قیمت 0.64 روپے کی کمی کے ساتھ 17.15 روپے کی بلند ترین سطح سے بڑھ کر 15.8 روپے پر پہنچ گئی۔
اس سے قبل بزنس ریکارڈر نے خبر دی تھی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف آئی پی پیز پر کام کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ چار آئی پی پیز، میسرز اٹلس پاور، میسرز صبا پاور، میسرز روس پاور اور لالپیر پاور نے معاہدوں کو قبل از وقت ختم کرنے پر دستخط کردیے ہیں جب کہ حبکو کی جانب سے منگل یا بدھ کو اس پر عمل کیے جانے کا امکان ہے۔
حبکو نے جمعرات کو اپنے اسٹیک ہولڈرز کو آگاہ کیا کہ کمپنی بجلی کے معاہدوں کو ختم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتے پر پہنچ گئی ہے۔
دریں اثناء وزیراعظم نے کہا کہ5 آئی پی پی مالکان نے ذاتی فائدے پر قومی مفاد کو ترجیح دی اور رضاکارانہ طور پر حکومت کے ساتھ ان معاہدوں کو ختم کرنے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ان پانچ آئی پی پیز نے بارش کے پہلے قطرے کی طرح عوامی ریلیف شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے پاور سیکٹر ریفارمز سے متعلق ٹاسک فورس اور وفاقی کابینہ کے ارکان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں پوری کابینہ کے ساتھ ان آئی پی پی مالکان کا مشکور ہوں۔