’لاپتہ‘ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے پی اسمبلی اجلاس میں سامنے آگئے

  • رینجرز اور اسلام آباد پولیس مجھے گرفتار کرنے کے پی ہاؤس میں داخل ہوئی، بیان
06 اکتوبر 2024

24 گھنٹوں سے زائد وقت تک لاپتہ رہنے کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا (کے پی) علی امین گنڈاپور اتوار کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اچانک پیش ہوئے۔

اپنی بازیابی کے مطالبے کے لیے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے رات کے پی ہاؤس میں گزاری۔

انہوں نے تصدیق کی کہ اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد انہیں گرفتار کرنے کے لئے کے پی ہاؤس میں زبردستی داخل ہوئی تھی۔

قبل ازیں کے پی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں لاپتہ وزیراعلیٰ کی بازیابی کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں اسپیکر پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تمام انٹیلی جنس اور دیگر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کریں۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی حکومت کو اس معاملے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔

قرارداد کی روشنی میں اسپیکر خیبر پختونخوا نے آئی جی، چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کو پیر کو طلب کیا۔

پس منظر

گنڈاپور پی ٹی آئی کے احتجاجی قافلے کی قیادت کر رہے تھے جسے انہوں نے حسن ابدال کے قریب چھوڑ دیا تھا اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ شہر آنے کے بعد وہ کے پی ہاؤس گئے جہاں پولیس نے چھاپہ مارا۔

پی ٹی آئی کے مطابق وزیراعلیٰ گنڈا پور کی پارٹی کے احتجاج کا حصہ بننے کے بعد رینجرز اہلکار زبردستی کے پی ہاؤس میں داخل ہوئے تھے تاکہ وہ وزیراعلیٰ گنڈا پور کو گرفتار کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کا یہ کھلم کھلا غلط استعمال پاکستان میں لاقانونیت کی صورتحال کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ عوام کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے میں ناکامی کے بعد اب انہوں نے ایک صوبے کے موجودہ وزیر اعلیٰ کو گرفتار کر لیا ہے۔

پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اہم اداروں میں کام کرنے والے لوگ ملک کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کا مقصد صرف ناجائز اقتدار کو برقرا رکھنا ہے جبکہ انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ وہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب خان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو کے پی ہاؤس اسلام آباد سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔

عمر ایوب نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ رینجرز اور اسلام آباد پولیس نے کے پی کی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک غیر قانونی گرفتاری کو انجام دیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین خان آئین کے مطابق ریاست کا حصہ ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا رینجرز، پولیس اور مسلح افواج ریاست کے آلہ کار ہیں؟ کیا پاکستان میں مارشل لاء نافذ کیا گیا ہے؟؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی اس فارم 47 حکومت کے لئے موت کی گھنٹی ہوگی

Read Comments