پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی گرفتاری سے متعلق دعوے واپس لے لیے ہیں تاہم اس کا موقف ہے کہ اسلام آباد میں کے پی ہاؤس میں رینجرز اہلکار اب بھی موجود ہیں۔
کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد سیف کا کہنا ہے کہ کے پی کے وزیراعلیٰ کو باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے پی ہاؤس میں موجود ہے۔
ان کے مطابق انہیں 25 اکتوبر تک ضمانت دے دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کے پی کے وزیراعلیٰ کو گرفتار کیا گیا تو یہ صوبے کی عوام کے مینڈیٹ کے منہ پر طمانچہ ہوگا۔
ان کے بقول جعلی حکومت کو اس طرح کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
اس سے قبل پی ٹی آئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ رینجرز اہلکار وزیراعلیٰ گنڈاپور کو گرفتار کرنے کے لیے زبردستی کے پی ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔
پارٹی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ رینجرز نے کے پی ہاؤس میں زبردستی داخل ہوکر کے پی کے علی امین گنڈاپور کو گرفتار کرنے کی جارحانہ انداز میں کوشش کی۔
بیان میں کہا گیا کہ اختیارات کا یہ کھلم کھلا غلط استعمال پاکستان میں لاقانونیت کی صورتحال کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔
پوسٹ کے مطابق عوام کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے میں ناکامی کے بعد اب انہوں نے ایک صوبے کے موجودہ وزیر اعلیٰ کو گرفتار کر لیا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اہم اداروں میں کام کرنے والے ملک کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں، وہ صرف اپنے ناجائز اقتدار کو بچانے کیلئے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب خان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو کے پی ہاؤس اسلام آباد سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
عمر ایوب نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ رینجرز اور اسلام آباد پولیس نے کے پی کی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک غیر قانونی گرفتاری کو انجام دیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین خان آئین کے مطابق ریاست کا حصہ ہیں۔
عمر ایوب نے سوال اٹھایا کہ کیا رینجرز، پولیس اور مسلح افواج ریاست کے آلہ کار ہیں؟ کیا پاکستان میں مارشل لاء نافذ کیا گیا ہے؟ یہ کارروائی اس فارم 47 حکومت کے لئے موت کی گھنٹی ہوگی۔
پنجاب حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے فوجی دستوں کو تعینات کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ہوائی اڈوں، سڑکوں، مقامات اور آس پاس کے علاقوں میں سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دوران غیر ملکی مندوبین کو سیکورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔