بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے 27 ستمبر 2024 کو منظور کیا جانے والا 7 ارب ڈالر کا قرض پروگرام توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) جوکہ 37 ماہ کی مدت پر مشتمل اور آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا 25 واں قرض پروگرام ہے۔ اس کا مقصد معاشی استحکام کی بحالی ہے۔
اس پروگرام میں بنیادی مقاصد پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس میں پالیسی سازی کی ساکھ کی تعمیر نو اور میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینا شامل ہے۔ نئے پروگرام کا مقصد نجی شعبے کے لئے زیادہ سازگار کاروباری ماحول کو فروغ دے کر پیداواری صلاحیت اور مسابقت بڑھانے کیلئے اصلاحات کو آگے بڑھانا ہے۔
ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) میں اصلاحات اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا بھی اس پروگرام کے مرکزی اجزاء ہیں۔ مزید برآں ای ایف ایف موسمیاتی مطابقت کو مضبوط بنانے پر زور دیتا ہے جو پاکستان کی معاشی بحالی کو پائیدار ترقی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔
میکرو اکنامک استحکام ایک پیچیدہ ہدف ہے جو ایک وسیع اور کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت رکھتا ہے جس میں منصفانہ ٹیکس نظام، مؤثر عوامی خرچ اور ایک ایسا ماحول تشکیل دینا شامل ہے جو اقتصادی نمو کو فروغ دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ پاکستان کا ٹیکس نظام بتدریج رجعت پسند ہوتا جا رہا ہے جو پہلے سے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر غیر مناسب دباؤ ڈال رہا ہے۔ نظام اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان، خاص طور پر کاروبار اور افراد سے زیادہ وصول کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔
بھاری ٹیکس کا بوجھ ترقی کو روک دیتا ہے جس سے کاروباروں کی توسیع، جدیدیت اور روزگار تخلیق کرنے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔ متعدد ٹیکس کی تہوں کا نفاذ ان مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے، جو مسابقت کو کم کرتا ہے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ جب کاروبار ان مالی پابندیوں تلے جدوجہد کرتے ہیں تو اقتصادی سکڑاؤ اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا خطرہ بڑھتا ہے جس سے حکومت کی آمدنی میں کمی آتی ہے۔ اس طرح کا ٹیکس فریم ورک، جو فوری وصولی پر مرکوز ہے نہ کہ طویل مدتی ترقی پر، مستقل اقتصادی ترقی اور مالی استحکام کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تفصیلی پروگرامز اس بات کی اہم ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں کہ آمدنی کو بڑھانے کے لیے ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے، خصوصی شعبہ جاتی نظام کو ختم کیا جائے اور تاریخی طور پر کم ٹیکس والے شعبوں، جیسے صنعت کاروں، ترقیاتی اداروں، اور بڑے زراعت کاروں کے درمیان ٹیکس کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ تاہم ان مقاصد کی تکمیل کے دوران حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان شعبوں پر ممکنہ منفی اثرات سے آگاہ رہے۔
ایک مستقل مسئلہ یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے عجلت پسندی، غیر منطقی اور غلط سوچ والی پالیسیوں کو تیار کرنے کا رجحان ہے جو مخصوص شعبوں کی حقیقتوں سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے تمام مسائل کے حل کیلئے ایک ہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ حالیہ ’تاجر دوست اسکیم‘ جس میں کاروبار کی نوعیت یا اس کی آمدنی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف کاروباری مقام کی بنیاد پر یکساں ایڈوانس ٹیکس عائد کیا گیا ہے، اس ناقص نقطہ نظر کی بہترین مثال ہے۔
یہ اسکیم، پچھلی اسکیموں کی طرح، ریونیوکریسی کی بیوروکریٹک رحجان کو ظاہر کرتی ہے جو قانونی مسودے کی تیاری کو عملی، ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی پر ترجیح دیتی ہے جس کے نتیجے میں ایسی پالیسیاں بنتی ہیں جو معیشت کی پیچیدگیوں کے لیے بالکل نامناسب ہوتی ہیں۔ ایسی غیر ہم آہنگ پالیسیاں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں بلکہ اہم اقتصادی شعبوں کو مزید بیگانہ کرتی ہیں جس سے کاروبار اور حکومت کے درمیان اعتماد اور تعاون کو نقصان پہنچتا ہے۔
پالیسی سازی اور عملی حقیقتوں کے درمیان یہ عدم تعلق آمدنی پیدا کرنے اور اقتصادی نمو میں رکاوٹ ڈالتا رہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی کو ایف بی آر سے ہٹا کر ایک آزاد، پیشہ ورانہ بورڈ کے حوالے کیا جائے۔
حکومت کو وفاقی-صوبائی ادارہ جاتی انتظامات کو مضبوط کرنے اور خاص طور پر ٹیکس کی انتظامیہ اور پابندی کو بہتر بنانے کے لیےکوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ یہ اس لیے خاص طور پر اہم ہے کہ کیوں کہ حکومت زرعی آمدنی کے ٹیکس کے نفاذ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جس کے لیے مختلف سطحوں پر حکومتی تعاون کی ضرورت ہے۔ وفاقی-صوبائی تعاون اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ٹیکس کا ایک مستقل اور منصفانہ ڈھانچہ ہو، جو ٹیکس چوری کے خطرے کو کم کرے جبکہ جوابدہی اور شفافیت کو فروغ دے۔
ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) میں اصلاحات اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر انتہائی ضروری ہے۔ اس میں دوبارہ ساخت، نجکاری، گورننس میں بہتری، اور شفافیت میں اضافہ شامل ہونا چاہیے۔ وہ ایس او ایز جو مسلسل مالی اور عملی ناکامیوں کی وجہ سے حکومت کی آمدنی کو کمزور کر رہی ہیں یا تو بہتر بنانی چاہیے یا ان سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔
ان اداروں کو اکثر مسلسل سبسڈیز یا مالی امداد کی ضرورت درپیش ہوتی ہے جس سے قومی بجٹ پر غیر مناسب دباؤ پڑتا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے تمام اداروں کو مالی طور پر قابل عمل بنانے کے لیے دوبارہ تشکیل دے یا غیر ضروری یا کمزور کارکردگی والے اداروں کی نجکاری پر غور کرے۔
حکومت کی ایس او ایز میں شمولیت ریگولیٹری اور نگرانی کی حیثیت تک محدود ہونی چاہیے بجائے اس کے کہ حکومت اس کا براہ راست آپریشنل کنٹرول حاصل کرے۔ آپریشنز کو ایسے پیشہ ور افراد کے حوالے کیا جانا چاہیے جن کے پاس ضروری تکنیکی اور انتظامی مہارت ہو تاکہ یہ ادارے مؤثر اور شفاف طریقے سے چلائے جائیں۔
سرکاری ملازمین جب تک خاص طور پر اہل نہ ہوں خصوصی شعبوں کے انتظام میں شامل نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی صنعت سے متعلق مہارت کی کمی اکثر بدانتظامی اور کارکردگی متاثر کرنے کا باعث بنتی ہے۔ حکومت کی مداخلت کو کم کرکے اور پیشہ ورانہ انتظامی ڈھانچے کو یقینی بنا کر ایس او ایز عوامی مفاد کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں اور ملک کی مجموعی اقتصادی صحت میں معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ جو انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے، وہ توانائی کے شعبے کی عدم پائیداری ہے۔ حکومتی امور اور غیر مؤثر ڈھانچے کی وجہ سے اس کی منفی اثرات قومی سطح پر مالی انتظام کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔
پہلے حکومت نے عوام اور صارفین پر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے آسانی سے یہ بوجھ منتقل کرنے کا حل نکالا۔ حالانکہ اس نے مالی استحکام کو برقرار رکھنے اور گردشی قرضے کے جمع ہونے کو کنٹرول کرنے میں مدد کی، مگر اس کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کاروباروں کی مسابقت متاثر ہو رہی ہے اور گھرانوں کو اپنی بنیادی ضرورت پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام میں ’ڈیپ کوسٹ سائیڈ‘ اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں حکومت کو سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیے بغیر اور غیر کارکردگی کی ذمہ داری کو متاثر کیے بغیر دوستانہ طریقے سے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کاروباروں پر منفی اثر ڈال رہا ہے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی مسابقت میں کمی آ رہی ہے۔ گھروں کے لیے بڑھتے ہوئے ٹیرف نے اس ضرورت کو پورا کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے جس سے گھریلو بجٹ پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اقتصادی عدم استحکام کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال مکمل اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، خاص طور پر ان اصلاحات کی جو شعبے میں عدم کارکردگی اور عدم پائیداری کی جڑوں کو نشانہ بناتی ہیں۔
موجودہ اقتصادی پروگرام ”ڈیپ کوسٹ سائیڈ“ اصلاحات پر زور دیتا ہے۔ حکومت کو توانائی پیدا کرنے والوں اور سپلائرز کے ساتھ موجودہ معاہدوں کی دوبارہ بات چیت کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ اخراجات کو کم کیا جا سکے، اور یہ عمل اس طرح کیا جائے کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر نہ کرے یا غیر کارکردگی کی ذمہ داریوں کو جنم نہ دے۔ یہ نازک توازن انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے اہم اسٹیک ہولڈرز کو الگ تھلگ کیے بغیر توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ گورننس سے متعلق مسائل کو حل کرنا، شفافیت کو بہتر بنانا اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد پاکستان کے توانائی کے شعبے میں طویل مدتی استحکام کی بحالی اور کاروبار وں اور گھرانوں دونوں پر اس کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لئے ضروری ہوگا۔