پہلی سہ ماہی: ایف بی آر کو 170 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا

28 ستمبر 2024

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مالی سال 2024-25 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران 170 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ایف بی آر نے جولائی تا ستمبر 2024 ء کے دوران 170 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے۔

دوسری جانب ایف بی آر کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) 2024-25ء کے لیے محصولات کی وصولی کے مقررہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس سے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے لئے مقرر کردہ 2,652 ارب روپے کا ہدف حاصل ہوجائے گا۔

ایف بی آر نے ریٹرن کے ساتھ تقریبا 50 ارب روپے جمع کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔ ایڈوانس ٹیکس کی قسط بھی ستمبر 2024 میں کارپوریٹ سیکٹر اور بینکوں کے ذریعے ادا کی جانی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر 30 ستمبر 2024 تک 2480 ارب روپے سے 2490 ارب روپے تک ریونیو اکٹھا کرسکے گا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کے اعلیٰ حکام نے ایف بی آر کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک آرڈیننس کے لیے قواعد تیار کریں جس میں نان فائلرز اور نِل فائلرز کے خلاف نفاذ کے اقدامات شامل ہوں، تاکہ مالی سال 2024-25 کے لیے 12,915 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔

وفاقی حکومت اور صوبے یکم جنوری 2025 سے کسانوں سے ٹیکس وصولی کے لیے موثر طریقہ کار وضع کرنے کے لیے بھی تعاون کررہے ہیں۔

حال ہی میں وزیر اعظم نے ایف بی آر کے ٹرانسفارمیشن پلان کی منظوری دی تھی جس میں نان فائلر کیٹیگری کے خاتمے اور نان رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی تنظیم نو کے حوالے سے اقدامات شامل ہیں۔ ایف بی آر نان فائلر کی تعریف تبدیل کرنے کے حوالے سے جلد قواعد جاری کرے گا جبکہ ٹیکس پالیسی ونگ کو وزارت خزانہ کے ماتحت کرنے کی سمری بھی کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے رواں سال 50 ارب روپے کے متوقع محصولات کے مقابلے میں اب تک ریٹیلرز سے 5 لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔

آنے والے دنوں میں ایک بڑی تبدیلی متوقع ہے کیونکہ ٹیکس پالیسی یونٹ کو وزارت خزانہ کو منتقل کردیا جائے گا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت ٹیکس پالیسی یونٹ کو مضبوط بنانے کے لئے مینجمنٹ پے اسکیل پر نجی شعبے کے افراد کی خدمات بھی حاصل کرے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments