الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ 2017 یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ سے وضاحت طلب کرلی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو الاٹ کی جائیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں سپریم کورٹ نے 5-8 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی اہل قرار دیا تھا۔ 5-8 کی تقسیم کے باوجود 13 میں سے 11 ججز نے پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی قرار دیا تھا۔
تاہم جولائی میں ابتدائی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سے بہت کچھ ہوا ہے۔
سب سے پہلے حکومت نے ایک نیا انتخابی قانون منظور کیا جس نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ’آزاد‘ اراکین اسمبلی کو پارٹی میں شامل ہونے سے روک دیا۔
اور پھر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن نے آج اپنی عرضی میں کہا کہ جب اس نے پہلے اس معاملے پر وضاحت مانگی تھی تو مذکورہ قانون موجود نہیں تھا۔ اس نے سپریم کورٹ سے رہنمائی طلب کی کہ آیا پارلیمانی قانون پر عمل کیا جائے یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن سپریم کورٹ کے 14 ستمبر کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے تیار تھا۔ تاہم ایسا کرنا نئے نافذ کردہ پارلیمانی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ڈی نوٹیفائیڈ قانون سازوں نے بھی ترمیم شدہ قانون پر عمل درآمد کے لیے اس سے رابطہ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے دو ’خاص شقوں‘ پر روشنی ڈالی جن میں سیکشن 66 اور سیکشن 104 اے میں ترامیم شامل ہیں۔
الیکشن ایکٹ کی شق 66 کی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی امیدوار انتخابی نشان الاٹ کرنے سے پہلے ریٹرننگ افسر (آر او) کو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اعلامیہ جمع نہیں کرواتا ہے تو اسے آزاد امیدوار سمجھا جائے گا نہ کہ کسی سیاسی جماعت کا امیدوار سمجھا جائے گا۔
سیکشن 104 میں ترمیم کے مطابق آزاد جیتنے والے امیدوار کا سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے دیا گیا اعلان، رضامندی یا حلف نامہ، چاہے کسی بھی نام سے پکارا جائے، ناقابلِ واپسی ہوگا اور اسے بدلا یا واپس نہیں لیا جا سکتا۔
درخواست کے مطابق چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس قانون پر مبنی تھا جو اس ترمیم سے پہلے موجود تھا، اس لیے مذکورہ فیصلہ اب ناقابلِ عمل ہے، اب ترمیم شدہ انتخابی ایکٹ ہی نافذ ہوگا اور سابقہ فیصلے پر فوقیت رکھے گا۔
پیر کے روز وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سنی اتحاد کونسل کے 80 ایم این ایز کی پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حالیہ انتخابی ایکٹ میں ترامیم کے بعد قانون سازوں کی حیثیت کے حوالے سے ”وقت واپس کرنا“ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ماضی کے متعدد عدالتی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر زیادہ ترجیح دی جائے گی۔ وزیر قانون نے کہا کہ تفصیلی نوٹ میں اختلاف کرنے والے دو ججوں کے لئے استعمال کیے گئے ”سخت الفاظ“ سے وہ ”افسردہ“ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے تمام جج برابر ہیں اور سنیارٹی فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اختلافات بحث اور منطق کی خوبصورتی ہیں، جب ہم کسی چیز کو گہرائی سے دیکھتے ہیں تو مختلف رائے سامنے آتی ہیں اور ان سے کچھ بہتر حاصل ہوتا ہے۔