بنگلہ دیش، حسینہ واجد کا بیٹا اصلاحات اور انتخابات میں پارٹی کے کردار کا خواہشمند

25 ستمبر 2024

بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے نے کہا ہے کہ وہ آرمی چیف کی جانب سے 18 ماہ کے اندر انتخابات کی ٹائم لائن سے خوش ہیں تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ان کی جماعت کے بغیر حقیقی اصلاحات اور انتخابات ناممکن ہیں۔

جنرل وقار الزماں، جنہوں نے اگست میں طلبہ کے مظاہروں کے پیش نظر حسینہ واجد کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کیا تھا، نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ جمہوریت کو ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر واپس آنا چاہیے۔

حسینہ واجد کے بیٹے اور مشیر سجیب واجد نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ کم از کم اب ہمارے پاس ایک متوقع ٹائم لائن ہے۔ لیکن ہم نے پہلے بھی ایسا ہوتا دیکھا ہے جہاں ایک غیر آئینی، غیر منتخب حکومت اصلاحات کا وعدہ کرتی ہے اور پھر حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔

وہ 1971 میں پاکستان سے آزادی کے بعد سے بنگلہ دیش کی بغاوتوں کی تاریخ کا حوالہ دے رہے تھے۔

تازہ ترین واقعہ 2007 کا ہے جب فوج نے ایک نگراں حکومت کی حمایت کی تھی جس نے دو سال بعد حسینہ واجد کے اقتدار سنبھالنے تک حکومت کی تھی۔

حسینہ واجد کے فرار ہونے کے بعد پولیس کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے طاقتور فوج نے بعد کے واقعات میں اہم کردار ادا کیا اور جنرل وقار الزماں کا کہنا تھا کہ وہ ہر ہفتے عبوری حکومت کے سربراہ سے ملاقات کرتے ہیں کیونکہ فوج استحکام کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور اس کی سخت حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دونوں نے اگست میں عبوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں جنوبی ایشیائی ملک کی غیر منتخب عبوری حکومت نے انتخابات سے قبل عدلیہ، پولیس اور مالیاتی اداروں میں اصلاحات کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔

بدھ کے روز محمد یونس کے دفتر نے کہا تھا کہ حکومت اپنے قائم کردہ چھ اصلاحاتی پینل کی سفارشات موصول ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرے گی۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اصلاحات پر اتفاق رائے ہو جانے اور ووٹر لسٹ تیار ہونے کے بعد ووٹنگ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔

بی این پی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ جلد از جلد انتخابات ہوں۔

واشنگٹن میں رہنے والے سجیب واجد نے کہا کہ نہ تو انہوں نے اور نہ ہی عبوری حکومت نے 170 ملین آبادی والے ملک کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پرانی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کو باہر رکھ کرکے جائز اصلاحات اور انتخابات کروانا ناممکن ہے۔

حسینہ واجد گزشتہ ماہ فرار ہونے کے بعد سے دہلی کے قریب پناہ لئے ہوئے ہیں۔

عوامی لیگ کے کئی دیگر سینئر رہنماؤں کو یا تو اس لڑائی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جس میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے یا پھر وہ روپوش ہو گئے ہیں۔

سجیب واجد نے مزید کہا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے عوامی لیگ کے بہت سے کارکن مارے جا چکے ہیں۔

عبوری حکومت کے نمائندوں نے فوری طور پر ان کے بیانات پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

انتخابی اصلاحات ی پینل کے سربراہ بدیع العالم مجمدار نے کہا کہ وہ جائزہ لینے کے بعد تین ماہ کے اندر سفارشات پیش کریں گے۔

یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوامی لیگ کے ساتھ مذاکرات کرے یا انتخابات کے وقت کا تعین کرے۔

گزشتہ ماہ سجیب واجد نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ حسینہ واجد ملک میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ مطالبہ بغاوت کی قیادت کرنے والے طالب علموں کی جانب سے کیا گیا تھا اور عوامی لیگ انتخابات لڑنا چاہتی ہے۔

منگل کے روز جب ان سے پوچھا گیا کہ حسینہ کب وطن واپس آئیں گی تو انہوں نے جواب دیا، ’یہ ان پر منحصر ہے۔ فی الحال میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہوں، لہذا میں محمد یونس حکومت کی طرف سے ان کے خلاف ہونے والے مظالم کے بارے میں بین الاقوامی شعور اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔

Read Comments