جوہری ہتھیاروں سے لیس دنیا کی 9 ریاستوں میں سے ایک ہونے کے ناطے پاکستان علاقائی جغرافیائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار اور اسے داخلی محاذ پر متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے جس سے اس کی بین الاقوامی حیثیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری ادارے کمزور ہو چکے ہیں اور انہیں اندرونی اور بیرونی قوتوں کی جانب سے مسلسل مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مسلسل سیاسی افراتفری نے بدنظمی اور غیر یقینی صورتحال کے ایک گردشی نمونے کو ہوا دی ہے جس سے سیاسی و اقتصادی مضبوطی کو نقصان پہنچا ہے جو پائیدار ترقی اور استحکام کے لئے ناگزیرہے۔
دیرینہ سیاسی افراتفری کی بنیادی اور مستقل وجہ ملک کے سپریم قانون، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 ء کے آئین، خاص طور پر اقتدار کی تقسیم کے اس کے قائم کردہ اصول کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کرنا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزیاں معاشرے میں عام ہو چکی ہیں جو ادارہ جاتی خرابی کے وسیع تر نمونے کی عکاسی کرتی ہیں۔
سویلین، فوجی اور عدالتی اداروں کے درمیان تعامل نے ان اہم ریاستی عناصر کے لیے آئین کے ذریعے طے کردہ واضح حدود کو پوشیدہ کر دیا ہے۔
اداروں نے اپنے متعین کردہ کردار سے تجاوز کرنے کا رجحان پیدا کیا ہے اور اپنی قانونی اہلیت تجاوز کرکے اداروں اور اختیارات پر قبضہ جما لیا ہے۔ تاریخی طور پر فوج ملک کے سیاسی میدان میں اس کی سمت کا تعین کرنے میں نمایاں اثر و رسوخ رکھنے والا کردار رہی ہے۔
اس اثر و رسوخ اور فوجی بغاوتوں کے سہارے کو بیشتر مواقع پر اعلیٰ عدلیہ کی حمایت حاصل تھی جس نے آمروں کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔ فوج اور عدلیہ کے درمیان اس باہمی تعامل نے دائمی عدم استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ ان اداروں نے آئینی حدود کی پاسداری نہیں کی ہے جس سے سیاسی بدنظمی کی گردشی نوعیت میں اضافہ ہوا ہے [’آئین، اختیارات کی تقسیم اور بحران‘، بزنس ریکارڈر، 7 اپریل، 2023)۔
مختلف سیاسی رہنماؤں کی اقتدار کی ہوس نے عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں موثر حکمرانی کا بتدریج زوال ہوا ہے۔ سیاسی رہنماؤں اور فوج کی جانب سے بار بار استحکام بحال کرنے کے دعوؤں کے باوجود کوئی بھی جاری سیاسی انتشار کو کامیابی سے حل نہیں کر سکا۔
حالیہ سیاسی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ خان کا اپنی سیاسی شکست کو خوش دلی سے قبول کرنے سے انکار، پہلے سے موجود تقسیم کو مزید گہرا کر گیا اور ان کے حامیوں نے فوج پر ان کی برطرفی کے الزامات لگائے۔
اس پیش رفت نے سیاسی تفریق کو مزید پیچیدہ کردیا، یہ مسلسل عدم استحکام کا باعث بنی اور ایک متحد اور فعال حکومتی ڈھانچے کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان ان چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی قیادت قومی اتحاد اور موثر حکمرانی کو ترجیح دے تاکہ موجودہ سیاسی انتشار پر قابو پایا جا سکے۔
صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب اس سیاسی پیش رفت سے متعلق معاملات عدالتوں کے سامنے پیش کیے گئے۔ بدقسمتی سے عدلیہ ایک بار پھر قانون کی سختی سے پابندی کرنے میں ناکام رہی۔
اس کے برعکس عدالتوں نے اپنے قانونی فیصلوں میں اکثر موضوعی تشریحات کو اپنایا اور بعض اوقات ایسے فیصلے دیے جو عملاً ”قانون کو دوبارہ لکھنے“ کے مترادف تھے۔ عدلیہ کی اس حد سے تجاوز نے سیاسی افراتفری کو مزید بڑھا دیا ہے، قانونی نظام کی ساکھ کو کمزور کیا ہے اور جاری عدم استحکام میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں ذاتی تعصب اور تشریحی لچک کو شامل کرنے کی اجازت دے کر پاکستان کے سیاسی ماحول کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے، اور غیر جانبدار اور مستقل قانونی فیصلوں کی فراہمی میں نظامی ناکامی کو ظاہر کیا ہے۔ یہ ناکامی نہ صرف قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے بلکہ عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی ختم کرتی ہے، جس سے انصاف کی فراہمی کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
برسر اقتدار حکومتیں اکثر عدلیہ پر مبینہ مداخلتوں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کرنے کا الزام لگاتی ہیں۔ ایسے الزامات عائد کرتے وقت وہ آسانی سے یہ بھول جاتی ہیں کہ جب وہ اپوزیشن میں تھیں، تب بھی انہوں نے اہم قومی اداروں کو نشانہ بنانے میں سرگرم اور جارحانہ کردار ادا کیا تھا۔
صرف یہی نہیں بلکہ وہ سپریم کورٹ پر حملہ اور توڑ پھوڑ میں بھی ملوث رہیں۔ بدقسمتی سے، سنگین جرائم کو روکنے کے بجائے، ماضی میں عدالتوں نے متعدد افراد کو ضمانتیں دیں جو ان کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں آتے تھے جس سے عدلیہ کے حد سے تجاوز کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔
سیاسی حکومتوں نے ان شرپسندوں کے ساتھ بھی معاہدے کیے جو ہتھیار لے کر آئے اور دارالحکومت کے حساس مقامات پر قبضہ کر لیا اور اس طرح تعصب اور دہشت گردی میں ملوث ریاست مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی کے لئے ناپسندیدہ مثالیں قائم کیں۔
اہم اداروں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز اس کے سیاسی عدم استحکام سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ملک کی کمزور معیشت، جو پہلے ہی زیادہ قرضوں اور مسلسل تجارتی خسارے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے مزید سیاسی ہلچل کی متحمل نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عدم استحکام نے پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کے سیاسی استحکام اور معاشی نقطہ نظر کے بارے میں تشویش میں اضافے کے ساتھ ملک کا عالمی امیج خراب ہوا ہے۔
کچھ عناصر اہم معاہدوں کے خلاف بھی سرگرمی سے مہم چلا رہے ہیں جن میں آئی ایم ایف کے اہم بیل آؤٹ اور جی ایس پی پلس اسٹیٹس بھی شامل ہیں جو پاکستان کے برآمدی شعبے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح کی مخالفت اہم اقتصادی اقدامات کو کمزور کرتی ہے جس سے ملک کو درپیش مالی چیلنجز میں اضافہ ہوتا ہے۔
جب پاکستان ان مسائل سے نبرد آزما ہے تو یہ ضروری ہے کہ موجودہ رکاوٹوں پر قابو پانے اور بات چیت کے ذریعے ایک مستحکم، جمہوری سیاسی نظام کے قیام اور قومی مفادات کے معاملات پر سیاسی اتفاق رائے حاصل کرنے پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب ملک کے سرکردہ سیاسی رہنما عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر انتشار کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں جس نے معاشرے کو شدید طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔
ان رہنماؤں پر، جو اپنی زندگی کی 70 بہاریں دیکھ چکے ہیں، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وہ سیاست دانوں کے بجائے ریاستی رہنما بن کر قوم کے اتحاد کو ذاتی یا جماعتی مفادات پر ترجیح دیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بامعنی بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے کو فروغ دیں اور ایک جامع سیاسی فریم ورک تشکیل دیں جو تمام پاکستانیوں کی ضروریات کو پورا کرے۔ اس مشترکہ کوشش سے نہ صرف سیاسی عمل پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ جیسے اہم اداروں کے درمیان تقسیم کو بھی ختم کیا جاسکے گا جو ملک کے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دینے میں فعال طور پر شامل ہیں۔
خاص طور پر عدلیہ کو ایک غیر جانبدار ثالث اور بنیادی حقوق کی نگہبان کی حیثیت سے اپنے بنیادی کردار کی طرف لوٹنا چاہیے اور سیاسی تناؤ کو ہوا دینے والے تعصب کے تاثر سے گریز کرنا چاہیے۔
اسی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی آئینی حدود کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا اثر و رسوخ سیاسی اختلافات میں اضافہ نہ کرے۔ تمام اطراف سے فوری اور حقیقی کوششوں کے بغیر جاری سیاسی افراتفری قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر عدم استحکام پر قابو نہ پایا گیا تو یہ عدم استحکام پاکستان کے معاشی امکانات کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کی بین الاقوامی حیثیت کو کمزور کر سکتا ہے اور ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ قیادت قومی مفادات کو ترجیح دے اور پاکستان کو زیادہ مستحکم اور خوشحال مستقبل کی گامزن کرنے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔