حکومت نے غلط منصوبہ بندی کے تحت مناسب انکشاف کے بغیر آئینی ترامیم لانے، مجوزہ تبدیلیوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے یا یہاں تک کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ اس کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے درکار تعداد موجود ہے۔
ہفتے کے آخر میں دونوں ایوانوں کے اجلاسوں کو عجلت میں بلانا بھی آخر کار بے سود ثابت ہوا کیونکہ پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کوئی ہوم ورک یا بحث نہیں کی گئی تھی۔
چونکہ مجوزہ بل کی تحریری شکل کو عوامی سطح پر پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ شیئر کیا گیا، اس لیے میڈیا اور عوام حکومت کی اس چال کو سمجھنے کے لیے ہوا میں اڑتی چند باتوں کو ہی پکڑنے کی کوشش کرتے رہے۔
حکومت کی جانب سے لابنگ کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ مل سکے۔ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کیلئے قومی اسمبلی (این اے) میں 11 اور سینیٹ میں 5 ووٹوں کی کمی رہی۔ حکومت کی مایوس کن کوششیں مولانا فضل الرحمن کی جمیعت علماء اسلام (ف) کے 8 اور 5 ووٹ حاصل کرنے کیلئے تھیں اور حتیٰ کے اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ایک اور 2 ووٹس حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں چاہئے وہ لالچ دینے کی بات ہو( بی این پی-ایم کے معاملے میں) یا دھمکیاں دینے کی۔
مجوزہ ترمیم کا بنیادی مواد عدلیہ پر مرکوز تھا۔ سپریم کورٹ (ایس سی) میں زیر التوا بڑے پیمانے پر مقدمات سے نمٹنے کی آڑ میں آئینی اور سیاسی مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ سپریم کورٹ کو عوامی مسائل سے متعلق معاملوں کے پہاڑ سے نمٹنے کی آزادی مل سکے۔
باخبر ذرائع اور مبصرین کے مطابق حکومت کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئندہ ماہ ریٹائرمنٹ کے حوالے سے شکوک و شبہات لاحق ہیں اور موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کی کرسی پر ترقی دی جا رہی تھی۔
جب اس طرح کے معاملات میں حکومتیں چادر اوڑھنے اور رات کے اندھیرے حربوں کا سہارا لیتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں سامنے آیا ہے تو اس سے موجودہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس اور ان کے جانشین کی بے توہین ہوتی ہے کیونکہ رائے عامہ یہ قیاس آرائیاں کرتی ہے کہ سابق چیف جسٹس کو حکومت کا ’ہمدرد‘ سمجھا جاتا ہے، اور مؤخر الذکر کو نہیں۔
ججز ایسے فیصلے دے سکتے ہیں جو ایک طبقے کو خوش کریں اور دوسرے کو مایوس کریں، لیکن ان کے فیصلے خود بولتے ہیں اور اگر یہ ٹھوس دلائل اور قانون پر مبنی ہوں تو ان فیصلوں کو سب کی طرف سے قبولیت اور احترام ملنا چاہئے اگر عدلیہ کی آزادی اور اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔
اس معاملے کی اصل بنیاد سپریم کورٹ کی جانب سے 5-8 کے تناسب سے سنایا گیا فیصلہ ہے جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو قومی اسمبلی کی 41 نشستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دینے کا حکم دیا گیا ہے جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑے لیکن بعد میں خود کو پی ٹی آئی کے رکن قرار دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو اپنی ہدایت پر عمل کرنے اور تاخیری اور غیر متعلقہ حربوں کے ذریعے ٹال مٹول نہ کرنے کے لیے سخت یاد دہانی جاری کرنے پر مجبور کیا ہے۔
یہ واقعی ایک غیر معمولی تصادم ہے جو دونوں ریاستی اداروں کے درمیان ہے۔ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے حکومت کی تجویز کردہ ترمیم میں چیف جسٹس کی تقرری پانچ سینئر ترین ججز میں سے کرنے کا تصور ہے نہ کہ سینئر ترین جج کو۔ اگر یہ ذاتی نوعیت کی تجویز کردہ قانون سازی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ترمیم کے دیگر متنازع پہلوؤں میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی ممانعت بھی شامل ہے، چاہے وہ فوجی اہلکاروں یا عام شہریوں کے خلاف ہوں۔ ظاہر ہے اس کا مقصد لیفٹیننٹ جنرل فائز حمید (ریٹائرڈ) کی کورٹ مارشل کی کارروائی کو ہدف بنانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امکان ہے کہ عمران خان کو بھی اس دلدل میں کھینچا جا سکتا ہے۔ان تمام حربوں کا کیا مطلب ہے؟ یہ دیرینہ پالیسی ہے کہ تمام مسائل، خاص طور پر اختلاف یا مخالفت کے، کو طاقت کے ذریعے حل کیا جائے نہ کہ معقول مکالمے کے ذریعے۔ بلوچستان میں یہی صورتحال جاری ہے جس نے اختر مینگل کو مایوسی اور پارلیمان سے استعفے پر مجبور کیا ہے۔ صوبے کے نوجوانوں کو مزاحمت کاروں کی جانب دھکیل دیا ہے اور اس کے ماضی سے مختلف نتائج برآمد ہونے کا امکان نہیں ہے اگرچہ شاید معاملہ اس سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
اسی طرح عمران خان اور پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں درپیش مشکلات، جن میں 9 مئی 2023 کی سابق حکومت کی مہم جوئی نے بے انتہا اضافہ کیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کے حصول کیلئے اتنے عام طریقہ کار کے تحت بڑھ رہی ہیں جس سے گزرتے وقت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ ختم ہوتی جارہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ شاید انصاف کے نظام اور اس کی معمول کی تاخیر اور عمران خان کے خلاف مقدمات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے فوری نتائج نہ ملنے پر نادم ہو رہی ہے۔ اس جارحانہ طریقے کا مسئلہ، جیسا کہ ماضی کے تجربات اور حالیہ پیشرفت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے، یہ ہے کہ جتنا زیادہ اسٹیبلشمنٹ اس خاص گیس پیڈل کو دبانے کی کوشش کرتی ہے، اتنے ہی زیادہ نتائج برعکس ثابت ہورہے ہیں یا غیر متوقع نکلتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی ثقافت، ہماری تاریخ کے باعث قابل فہم وجوہات کی بنا پر، ہمیشہ اصل یا محسوس کردہ کمزور فریق کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے، چاہے اس کمزور فریق کی خصوصیات یا خامیاں کچھ بھی ہوں۔ عوام کو حقیقی نمائندگی سے محروم رکھنے، حقوق کی معتبر پاسداری اور اسٹیبلشمنٹ جو چاہتا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے طاقت اور خوف کے حقیقی یا دھمکی آمیز استعمال کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ہمارے عوام کا شدید رد عمل ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا منظر نہیں ہے، نہ ماضی سے، نہ حال سے اور فکر کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والے خوفناک تباہی کی علامت ہے۔