حکومت اپوزیشن کو منانے میں ناکام

حکومت ایک بار پھر مجوزہ ”آئینی پیکیج“ کی حمایت کے لئے اپوزیشن کو راغب کرنے میں ناکام رہی، کیونکہ قومی اسمبلی کا...
16 ستمبر 2024

حکومت ایک بار پھر مجوزہ ”آئینی پیکیج“ کی حمایت کے لئے اپوزیشن کو راغب کرنے میں ناکام رہی، کیونکہ قومی اسمبلی کا اتوار کا اجلاس دن بھر کے اجلاسوں کے بعد ساڑھے 12 گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے کے چند منٹ بعد آج (پیر) دوپہر 12:30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ایوان کا اجلاس ابتدائی طور پر صبح ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم شام 4 بجے تک موخر کردیا گیا اور پھر رات 8 بجے تک ملتوی کردیا گیا جبکہ حکومتی ارکان نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات جاری رکھی تاکہ آئینی ترمیم کے لیے ان کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

ایاز صادق کی زیر صدارت ایوان کا اجلاس صبح 11 بجے شروع ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی بلال کیانی نے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے تحت 15 اور 16 ستمبر کے لیے پوائنٹس آف آرڈر، وقفہ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹسز کے علاوہ دیگر معاملات کے حوالے سے رولز 18، 69 اور 88 کی شرائط معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ تحریک منظور کی گئی جس کے نتیجے میں ایوان کی کارروائی آج (پیر) دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی رائے سے مجوزہ آئینی ترمیم کو منظوری کے لیے آج ایوان میں پیش کیا جائے گا کیونکہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ کی سربراہی میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر ارکان نے بھی مجوزہ آئینی ترمیم پر غور کیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی عددی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ایوانوں کے اجلاس ملتوی کیے گئے۔

ابھی تک مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کی حمایت کی یقین دہانی نہیں کرائی، ان کی جماعت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ آئیے کل دیکھتے ہیں کہ جاری بات چیت سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزاد امیدواروں کے ساتھ بھی آئینی پیکج کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق مولانا نے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سمیت ”آئینی پیکیج“ کی چند شقوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں جس سے حکومت کے مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج کو التوا کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا کی کچھ شرائط نے حکمران اتحاد کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ہے، جو پارلیمنٹ کے ذریعے پاکستان کے عدالتی اور پارلیمانی نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے کے مقصد سے ترامیم کو آگے بڑھانے کیلئے کافی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے ذرائع نے حکومت کے کچھ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ’آئینی عدالت‘ کے قیام کی مشروط حمایت کی ہے جب کہ وہ ججوں کی توسیع کے معاملے پر منقسم ہیں۔

مولانا سیاسی کشش کا مرکز بن چکے ہیں کیونکہ حکومت ، اس کے اتحادیوں اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت پی ٹی آئی نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ سے ان کی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے متعدد ملاقاتیں کیں۔

حکومت کو ”آئینی پیکج“ کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔

قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ سینیٹ میں یہ تعداد 64 ہے۔

قومی اسمبلی میں حکومتی بینچوں کے پاس اپوزیشن کے 101 ارکان کے مقابلے میں 211 ارکان ہیں جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو آئینی ترمیمی پیکج کی منظوری کیلئے مزید 13 ووٹوں کی ضرورت ہے۔

حکمران اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 110 ارکان شامل ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 68۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) 22۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) چار۔ تحریک پاکستان پارٹی (آئی پی پی) چار۔ پاکستان مسلم لیگ (زیڈ)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کے 80 ایم این ایز شامل ہیں، جنہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اور جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

حالانکہ حکومت نے آئین میں مجوزہ ترامیم پر خاموشی اختیار کررکھی تھی، لیکن واضح کیا کہ یہ پیکج کسی شخص کیلئے مخصوص نہیں ہوگا۔

مجوزہ ترامیم میں آئینی عدالت کا قیام، ججوں کے انتخاب کے ذمہ دار عدالتی اور پارلیمانی کمیشنوں کا انضمام اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم بھی شامل ہے جو ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی چھوڑنے کی بنیاد پر نااہل قرار دینے کے معاملے سے متعلق ہے۔

پیکج میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 51، 63، 175، 181 اور 187 میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے۔ اس میں بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی ترمیم بھی شامل ہے۔ اس میں ایک آئینی عدالت کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے، جس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ وہ آرٹیکل 184، 185 اور 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گی۔ آئینی عدالت کے بقیہ چار ججز کا تقرر جج کریں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments