سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصے پر الجھن پیدا کرنے پر الیکشن کمیشن کی سرزنش کردی

  • الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے اصل فیصلے پر 'الجھن پیدا کرنے' کی کوشش کر رہا ہے: سپریم کورٹ
اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کی وضاحت طلب کرنے کی درخواست پر الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اعلیٰ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرے۔

جولائی کے فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے حق میں فیصلہ سنانے والے آٹھ ججوں کے مطابق الیکشن کمیشن کی درخواست ’الجھن پیدا کرنے کی کوشش‘ اور عدالت کے اصل حکم پر عمل درآمد میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

آٹھ ججز نے وضاحت میں کہا ہمارے سامنے پیش کردہ ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مختصر حکم کے تناظر میں غور کرتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ کمیشن کی طرف سے طلب کردہ وضاحت کچھ اور نہیں بلکہ ایک تاخیری حربہ ہے۔

تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کرنے کے بعد اب اپنی پوزیشن تبدیل کرسکتا ہے اور نہ ہی سرٹیفکٹس کے معاملے پر وضاحت طلب کرنے کیلئے بہانے گڑھ سکتا ہے، الیکشن کمیشن متضاد موقف اختیار نہیں کر سکتا، یعنی وہ اپنی مرضی کے مطابق مقاصد کیلئے کوئی بھی موقف اپنانے یا تبدیل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن، چاہے اس درخواست پر کوئی انتہائی شائستگی یا ہمدردی کے انداز میں ہی غور کیوں نہ کرے، بظاہر معروف حقیقی نظریے یا اصول کو بھول گیا ہے جس کے تحت کسی عہدے پر فائز شخص کے اعمال کا تحفظ کیا جاتا ہے چاہے اس عہدے کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو [اور یہاں پی ٹی آئی کے حوالے سے ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا]۔ یہ کافی ہے اور کمیشن آئین کے مطابق اس بات کو ذہن میں رکھنے کا پابند ہے کہ [جیسا کہ اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے بیان کیا گیا] تسلیم شدہ موقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تھی اور ہے۔

سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بنچ نے 12 جولائی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں سنی اتحاد کونسل- جس میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شامل ہوئے- کو مخصوص نشستوں سے محروم کر کے یہ نشتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکمران اتحاد کو دی گئی تھیں۔

8-5 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا گیا کہ پی ٹی آئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اوراقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی اہل ہے۔

فیصلے پر حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی گئی کیونکہ اس سے نہ صرف حکومتی اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہوا بلکہ پی ٹی آئی دونوں ایوانوں میں سب سے بڑی جماعت بھی بنی۔

عدالت کے فیصلے کے بعد، انتخابی نگران ادارے نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم، بعد میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے 12 جولائی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کی جو خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے حق میں سنایا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ اس نے عدالتی احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے 39 امیدواروں سے متعلق فیصلے پر عمل کیا ہے تاہم اس نے نظر ثانی کی درخواست اپنا آئینی حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو متعصبانہ نہ سمجھا جائے۔

ای سی پی کا کہنا تھا کہ فیصلہ آئین، قانون اور اس عدالت کے سابقہ فیصلوں سے مطابقت نہیں رکھتا لہذا اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

Read Comments