اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اہم شرح سود پر مارکیٹ کے وسیع تر اندازوں سے بھی کہیں بڑا قدم اٹھایا ہے اور شرح سود 200 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کم کرکے 17.5 فیصد کر دیا تاہم ملک کی کاروباری برادری اب بھی غیر مطمئن ہے۔ کاورباری طبقے کی دلیل ہے کہ یہ نرمی بامعنی معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ناکافی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے جون میں 150 بی پی ایس کی کمی اور جولائی کے آخر میں مزید 100 بی پی ایس کی کمی کے بعد جمعرات کو مسلسل تیسری بار مالیاتی نرمی کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ اپریل 2020 کے بعد سے شرح میں سب سے بڑی کمی ہے۔
تاہم مہنگائی ایک ہندسے میں ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو بڑی کمی کی امید تھی۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار نے کہا کہ یہ کمی افراط زر میں کمی سے مطابقت نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ کے سی سی آئی کم از کم 5 فیصد کمی کی امید کر رہا تھا جو افراط زر میں حالیہ کمی سے مطابقت رکھتی ہے۔
الطاف اے غفار نے اس بات پر زور دیا کہ 17.5 فیصد شرح سود اتنی زیادہ ہے کہ اہم معاشی سرگرمیوں کو فروغ نہیں دے سکتی۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے شرح سود کو 7 سے 8 فیصد کے درمیان لانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اسٹیٹ بینک پر زور دیا کہ وہ اپنے اگلے جائزے میں پالیسی ریٹ میں مزید 500 بی پی ایس کی کمی کرے، انہوں نے کہاکہ ہم شرح سود میں کمی کے رجحان کو سراہتے ہیں لیکن مزید بڑے نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کی افراط زر میں کمی بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک کے سخت مالیاتی موقف کے بجائے انتظامی اقدامات اور بہتر زرعی پیداوار کی وجہ سے ہوئی ہے۔
غفار نے کہا کہ روپے کی قدر میں استحکام نے بھی افراط زر کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے کیونکہ اس سے درآمدی اشیاء کی لاگت کم ہوتی ہے۔
الطاف اے غفار نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر میں کمی واقع ہوتی ہے اور روپے کی قدر میں استحکام کے ساتھ ہم نے افراط زر میں کمی دیکھی ہے۔
اسی طرح فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے انتہائی ”چھوٹا“ اور ”تاخیر پر مبنی“ قرار دیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بنیادی افراط زر اگست 2024 میں 9.6 فیصد تھی جس کا مطلب ہے کہ 200 بی پی ایس کی کمی کے بعد بھی حقیقی شرح سود افراط زر سے 790 بی پی ایس سے زیادہ ہے- اس صورتحال کو انہوں نے ”کاروبار اور ترقی مخالف“ قرار دیا۔
عاطف اکرام شیخ نے دلیل دی کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں تین سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور 70 ڈالر فی بیرل سے نیچے ہیں، اسٹیٹ بینک کے پاس شرح سود میں مزید نمایاں کمی کا اعلان کرنے کی کافی گنجائش ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکام کے پاس شرح سود میں نمایاں کمی کیلئے تمام سازگار حالات موجود ہیں لیکن انہوں نے تھوڑی سی کمی کی مانیٹری پالیسی کا انتخاب کیا جو منفی اثرات مرتب کرے گی۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے برآمد کنندگان زیادہ سرمائے کی لاگت کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ برآمد کنندگان کو کچھ ریلیف فراہم کرنے اور انہیں مسابقتی ماحول دینے کیلئے شرح سود کو فوری طور پر کم از کم 12 فیصد تک لانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کو توانائی کی قیمتوں میں اصلاحات کے ساتھ جوڑا جانا چاہئے ، خاص طور پر صنعتوں کے لئے بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کے لئے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کی جانی چاہئے۔
آٹوموٹو انڈسٹری بھی بلند شرح سود کے اثرات کو محسوس کر رہی ہے۔
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان نے تشویش کا اظہار کیا کہ 200 بی پی ایس کی کمی سے اس شعبے کی بحالی پر بہت کم اثر پڑے گا۔
انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایاکہ 17.5 فیصد تک کمی کا کوئی قابل مثبت اثر نہیں پڑے گا۔
مشہود خان نے کہا کہ گاڑیوں کی بلند قیمتوں اور قوت خرید میں کمی نے پاکستان میں گاڑیوں کی طلب کو نمایاں طور پر کمزور کر دیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ شرح میں کمی کے بعد فروخت میں معمولی اضافہ ہوگا اور فروخت موجودہ 79،000 یونٹس سے بڑھ کر 90،000 یا 100،000 یونٹس سالانہ تک پہنچ پائے گی۔
انہوں نے کہاکہ یہ صنعت کے سالانہ 200،000 سے 250،000 کاروں کے معیار سے بہت کم ہے۔
دریں اثنا یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے اسٹیٹ بینک کو بنیادی افراط زر پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا جس میں مانیٹری پالیسی کا تعین کرتے وقت خوراک اور توانائی جیسے غیر مستحکم اجزاء شامل نہیں ہیں۔ تنویر نے کہا ہمیں اپنی پالیسیوں کی بنیاد اپنے معاشی حقائق پر رکھنی چاہیے۔
گزشتہ تین بار کی کمی کے دوران پالیسی ریٹ 22 فیصد سے 17.5 فیصد تک آنے کے باوجود ایم تنویر نے نشاندہی کی کہ معمول کے مطابق افراط زر کی شرح بہت زیادہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افراط زر کے دباؤ پر قابو پانے میں اسٹیٹ بینک کا نقطہ نظر غیر موثر رہا ہے۔
انہوں نے مقامی معاشی حالات اور کاروباری ضروریات کی بہتر عکاسی کے لئے ملک کی مالیاتی اور شرح سود کی حکمت عملیوں کا ازسرنو جائزہ لینے پر زور دیا۔