وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو سینیٹ اجلاس کے دوران بتایا کہ اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو 7 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام جس پر 12 جولائی کو اسٹاف لیول معاہدہ (ایس ایل اے) طے پایا تھا، وہ پاکستان کا آخری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام ہوگا۔
آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے ای ایف ایف کی منظوری ابھی تک التوا کا شکار ہے، جو کہ رقم کی فراہمی کے لیے ایک لازمی شرط ہے،آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردہ 18 ستمبر تک بورڈ کیلنڈر کے ایجنڈے میں پاکستان شامل نہیں ہے۔ اس سے جائز خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ حکومت نے ابھی تک ان ”سابقہ“ شرائط کو پورا نہیں کیا ہے جن پر اسٹاف لیول معاہدے کے دوران اتفاق کیا گیا تھا۔
اکنامک منیجرز کی جانب سے تسلیم کی جانے والی ایک پیشگی شرط یہ ہے کہ بجٹ میں شامل غیر ملکی قرضوں کا حصول/ یقین دہانی ملٹی لیٹرلز اور بائی لیٹرلز سے حاصل کیے جائیں، اور دونوں دستخط کنندگان — وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر — کو آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے لیٹر آف انٹینڈ جمع کروانا ہوگا جو ایس ایل اے میں طے شدہ تمام معاہدوں کے نفاذ کی یقین دہانی کرائے۔ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک عوامی طور پر دعویٰ کررہے ہیں کہ ان اہداف کو پورا کرنے میں پیشرفت ایک ایڈوانس اسٹیج پر ہے۔
وزیرخزانہ نے دو طرفہ قرضوں کا ذکر کیا، جبکہ گورنر نے بینکنگ سیکٹر سے کمرشل قرضوں پر انحصار کا حوالہ دیا، جو بجٹ میں شامل رقم سے 2 ارب ڈالر زیادہ ہیں، جس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ دوست ممالک سے بجٹ میں شامل قرضوں میں کچھ کمی ہوسکتی ہے ۔
اس بات پر بھی خدشات ہیں کہ پنجاب حکومت کی جانب سے 16 اگست کو 45 ارب روپے کی لاگت سے 500 یونٹ ماہانہ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو 14 روپے فی یونٹ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا - ایک ایسی رقم جس کا بجٹ نہیں تھا اور یقینی طور پراس میں غریبوں کو ہدف نہیں بنایا گیا ہے - ایس ایل اے کی خلاف ورزی تصور کی جاسکتی ہے جس میں حکومت نے غیر فنڈڈ اور غیر ہدف سبسڈی نہ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی قیادت شاید آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط و ضوابط پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
تین مزید اہم مشاہدات پر توجہ دی جانی چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اصلاحات کے نفاذ سے ای ایف ایف قرضے کی منظوری ملے گی، اور چونکہ 2019 کے بعد پاکستانی حکام پر واضح ہوگیا کہ دیگر ممالک کی جانب سے امداد صرف اسی صورت میں جاری کی جائے گی جب آئی ایم ایف قرض جارے کرے گا ۔ دوسرے الفاظ میں، بغیر کسی فعال جاری آئی ایم ایف پروگرام کے، جس کے نفاذ کے ہر تین ماہ بعد آئی ایم ایف اسٹاف کی طرف سے سخت نگرانی کی جاتی ہے، کوئی ملک یا عالمی ادارہ پاکستان کو مزید قرض دینے کو تیار نہیں ہے۔
اس سے ملک کی ریٹنگ ڈیفالٹ کی سطح پر برقرار رہے گی جس کے نتیجے میں بیرون ملک سے کسی بھی کمرشل بینک کے قرضوں کی خریداری یا سکوک / یورو بانڈز کا اجراء انتہائی مہنگا ہوجائے گا - یہ صورتحال پاکستان کو پچھلے مالی سال میں درپیش تھی، حالانکہ ملک آئی ایم ایف کے ساتھ 9 ماہ کا 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پر تھا جسے اس نے مارچ تک کامیابی سے مکمل کیا۔
دوسرا مشاہدہ گہری تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ای ایف ایف کے تحت طے شدہ سخت پیشگی شرائط کے نفاذ سے بورڈ کی منظوری تو مل سکتی ہے، مگر یہ اس بات کی ضمانت نہیں دے گا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، جس کی دو بڑی وجوہات ہیں: (i) آئی ایم ایف مجموعی ٹیکس وصولیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے نہ کہ ٹیکس کے ذرائع پر، جو وفاقی بورڈ آف ریونیو اور ملک کے اقتصادی منتظمین کی طرف سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آج تک ٹیکس کا ڈھانچہ اشرافیہ اور اعلی مراعاتی اقدار کے حامل طبقوں کے حق میں کیوں بنا ہوا ہے جسے آنے والی حکومتیں ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ زیادہ بوجھ تلے دب جاتا ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس سیلز ٹیکس موڈ میں لگائے جاتے ہیں، ایک بالواسطہ ٹیکس جس کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ ہوتا ہے، اور بالواسطہ ٹیکسز پر کل انحصار تمام محصولات کی وصولیوں کا 80 سے 85 فیصد ہے - یہ ایک ایسا رجحان ہے جو گزشتہ سال غربت کی سطح کو 41 فیصد تک بڑھانے کا سبب بنا۔
تاجروں پر ٹیکس لگانے پر زور دیا جا سکتا ہے لیکن رواں سال ان سے متوقع آمدنی کا تخمینہ صرف 50 ارب روپے لگایا گیا ہے اور اس لیے اخراجات میں کٹوتی کی اشد ضرورت ہے۔
موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے سڑکوں پرجماعت اسلامی کے احتجاج سے بڑھ کر احتجاج ہوسکتا ہے ، جس کا مقصد حکومت پر اس طرح کی نام نہاد اصلاحات سے پیچھے ہٹنے کیلئے دباؤ ڈالنا تھا۔
اور (ii) حکومت کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کررہی ہے جس میں تجارتی اور غیر تجارتی سرکاری اداروں کی نجکاری شامل ہے (ماہر معاشیات قیصر بنگالی کے مطابق جنہوں نے حال ہی میں کفایت شعاری کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا) اور ساتھ ہی ٹیکس دہندگان کی جانب سے ادا کی جانے والی ملک کی کل لیبر فورس کے 7 فیصد کے لیے مختص مراعات میں کٹوتی بھی شامل ہے (پنشنز کو چھوڑ کر، کیونکہ ملازمین کی شراکت صفر ہے)۔ ہم حکومت اوروہ تمام افراد جو خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات کو رضاکارانہ طور پر کم کریں کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔
جب تک رواں سال موجودہ اخراجات میں کم از کم 2 ٹریلین روپے کی کمی نہیں کی جاتی، مزید قرضوں کی ضرورت - چاہے وہ بیرونی ہوں یا اندرونی - 37 ماہ کے پروگرام کے اختتام تک ختم نہیں ہوگی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام مناسب طور پر ڈیزائن نہیں کیا گیا اور اس کے نتائج سخت معاشی سکڑاؤ کی صورت میں سامنے آئیں گے (مالیاتی اور مانیٹری پالیسی دونوں کے لحاظ سے) جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ترقی اور درآمدات پر مبنی ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے منی بجٹ کی ضرورت پڑے گی، بلکہ موجودہ اخراجات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے زیادہ قرضے لینے کی کوشش کرے گی۔ اس کا بجٹ 18.877 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے، جو پچھلے سال کی نظرثانی شدہ تخمینوں سے 25 فیصد زیادہ ہے، جبکہ موجودہ اخراجات پچھلے سال کے نظرثانی شدہ تخمینوں سے 21 فیصد زیادہ تجویز کیے گئے ہیں۔
کچھ نہ کچھ تو قربان کرنا ہوگا، کیونکہ عام عوام کی آمدن محدود ہے، اس لیے حکومت کے موجودہ اخراجات میں ایسی حد تک کمی کی ضرورت ہے جو واضح طور پر نظر آئے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024