بلوچستان میں سرحدی تجارت

08 ستمبر 2024

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ملک کی سرحدی تجارت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ افغانستان (1468 کلومیٹر) اور ایران (909 کلومیٹر) کے ساتھ وسیع سرحدوں کا اشتراک کرتے بلوچستان کی منفرد حیثیت اسے دو طرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کا مرکز بناتی ہے۔

اس کے 36 اضلاع میں سے 13 ان بین الاقوامی سرحدوں کے ساتھ واقع ہیں جن میں سے 9 اضلاع افغانستان اور 5 ایران کی سرحد سے متصل ہیں۔ ان سرحدوں پر تجارت صرف اقتصادی لین دین کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ مقامی آبادی کے لئے ایک لائف لائن ہے۔

سرحدوں کے دونوں جانب کی کمیونٹیز مشترکہ زبانیں، ثقافتیں، اقدار، اور تاریخیں رکھتی ہیں اور ایسا خاص طور پر پاک افغان سرحد کے ساتھ پشتونوں کے درمیان ہے۔ یہ گہرا تعلق ان سرحدی کمیونٹیوں کی روزی روٹی کے لیے سرحد پار تجارت پر انحصار کو نمایاں کرتا ہے۔

ہم نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائڈ) میں بلوچستان سے سرحد پار تجارت پر ایک جامع مطالعہ کیا، جسے راستہ-پائڈ نے مالی اعانت فراہم کی۔ اس مطالعے کا مقصد سرحدی اضلاع میں سرحد کے ساتھ اہم تجارتی ہاٹ اسپاٹس، تجارت کی نوعیت، مقامی آبادی کے لئے سرحدی تجارت کی اہمیت، درآمد اور برآمد کی جانے والی اشیاء، سرحدی تجارت کا حجم خاص طور پر ایران سے پٹرولیم درآمدات، اس کے نتیجے میں آمدنی میں کمی، لاگت کے فوائد کا تجزیہ اور آخر میں مطالعہ سرحدی تجارت بند ہونے کی صورت میں متوقع نتائج پر روشنی ڈالتا ہے۔

ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کے چار اضلاع کیچ، پنجگور، چاغی اور واشک میں حکومت بلوچستان نے ایک ٹوکن سسٹم نافذ کیا ہے جس کا آغاز 2020 میں ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر ایف سی کے زیر انتظام رہنے والے ٹوکن سسٹم کی نگرانی اب ڈی سی آفس کرتا ہے۔

وہ ایک فہرست فراہم کرتے ہیں جس میں ٹوکن ہولڈر، شناختی کارڈ نمبر، ’زمیاد‘ گاڑی کا انجن نمبر، چیسیس نمبر، رجسٹریشن نمبر، پتہ، بارکوڈ نمبر اور ڈرائیور کا نام شامل ہوتا ہے۔ یہ نظام سرحدی اضلاع کے رہائشیوں کو ایرانی پیٹرولیم درآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ زمیاد گاڑیوں کے ٹوکن کی تقسیم مختلف اضلاع میں مختلف ہوتی ہے۔ درحقیقت ہر ضلع میں ٹوکن یونین کونسلوں (یو سیز) میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور ان کا حجم یونین کونسلوں کی آبادی پر مبنی ہوتا ہے۔

ہماری راستہ-پائڈ کی رپورٹ کے مطابق کیچ ضلع میں 600 دستاویزی زمیاد گاڑیوں میں سے ہر ایک کو یومیہ 4 ہزار لیٹر پیٹرول درآمد کرنے کی اجازت ہے جس کا مجموعی حجم 24 لاکھ لیٹر بنتا ہے۔ اسی طرح ضلع چاغی میں مقامی رہائشیوں کیلئے 250 ٹوکن منظور کیے جاتے ہیں جس سے وہ یومیہ 10 لاکھ لیٹر تیل درآمد کرسکتے ہیں۔

اضافی طور پر، ضلع پنجگور میں زمیاد گاڑیوں کے ٹوکن/پرمٹ سرحد کے دو تجارتی مراکز کے لیے مختص کیے گئے ہیں: چدگی کے لیے 250 اور جیراک سرحد کے لیے 350 ٹوکنز، جس سے کل تعداد 600 بنتی ہے اور یومیہ 24 لاکھ لیٹر پیٹرولیم کی درآمد ہوتی ہے۔ دوسری طرف ضلع واشک میں 700 زمیاد گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر ایران سے پیٹرولیم درآمد کرتی ہیں جس کے نتیجے میں روزانہ 28 لاکھ لیٹر کی درآمد ہوتی ہے۔ اس طرح ان چار سرحدی اضلاع میں کل 2150 زمیاد گاڑیوں کے ٹوکن موجود ہیں جن کے نتیجے میں مجموعی طور پر یومیہ 86 لاکھ لیٹر پیٹرولیم کی درآمد ہوتی ہے۔ اور ان اضلاع میں تجارت کی نوعیت غیر رسمی مگر دستاویزی ہے۔

اضافی طور پر، ضلع گوادر میں، ایران سے پیٹرولیم کی درآمد کے لیے چھوٹے جہاز کنٹانی سرحد کے ذریعے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس سرحدی مقام پر تقریباً 2000 ڈپو یا ذخیرہ کرنے کی سہولیات، جنہیں مقامی طور پر ”منڈیاں/ڈپوز“ کہا جاتا ہے، چھوٹی تیز رفتار کشتیوں، جنہیں ”خائیک“ کہا جاتا ہے، کے ذریعے پیٹرولیم کی درآمد کو سنبھالنے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ہمارے اندازوں کے مطابق 2000 کشتیاں/جہاز، جنہیں خائیکس کہا جاتا ہے، اس غیر رسمی اور غیر دستاویزی تجارتی سرگرمی میں مصروف ہیں۔

ہر کشتی/خائیک کی گنجائش 23 گیلن ہوتی ہے اور ہر گیلن میں 70 لیٹر پیٹرول یا ڈیزل ہوتا ہے۔ اس طرح ہر خائیک کی پیٹرول یا ڈیزل کی ترسیل کی کل گنجائش 1610 لیٹر بنتی ہے۔ نتیجتاً کنٹانی سرحد پر یومیہ پیٹرولیم کی درآمد 3.22 ملین لیٹر ہے جو اس غیر رسمی چینل کے ذریعے تجارت کیے جانے والے پیٹرولیم کی بڑی مقدار کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں یہ ظاہر کرتا ہے کہ ضلع وار گوادرمیں کنٹانی سرحد کے ذریعے بلوچستان میں سب سے زیادہ درآمد ہوتی ہے۔ اس طرح ہماری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایران سے پیٹرولیم کی مجموعی یومیہ درآمد 11.82 ملین لیٹر ہے۔ تاہم ہماری تحقیق میں تفتان اور ریمدان/گبد سرحد، گوادر کے ذریعے کی جانے والی سپلائی شامل نہیں ہے۔

مزید برآں ہمارا مطالعہ بلوچستان میں سرحدی اضلاع اور سرحدوں کے ساتھ اہم تجارتی ہاٹ اسپاٹس کے حوالے سے روزانہ، ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر پٹرولیم درآمدات کے حجم کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ سالانہ بنیاد پر، درآمد کی مقدار کافی ہے۔ پنجگور چاڈگی بارڈر کے ذریعے سالانہ 312.86 ملین لیٹر اور جیرک بارڈر کے ذریعے 438.00 ملین لیٹر درآمد کرتا ہے۔ واشک کی سالانہ درآمدات گوازار میں 500.57 ملین لیٹر اور باچارہی میں 375.43 ملین لیٹر ہیں۔

کیچ کی عبدو سرحد کے ذریعے سالانہ درآمدات 750.86 ملین لیٹر ہیں۔ چاغی میں راجی-روتیک سرحد کے ذریعے ہر سال 312.86 ملین لیٹر پیٹرولیم درآمد کیا جاتا ہے۔ آخر میں گوادر، جو سالانہ درآمدات کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے، کنٹانی سرحد کے ذریعے 1007.4 ملین لیٹر وصول کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، ان اضلاع کی سالانہ درآمدات 3698.0 ملین لیٹر بنتی ہیں، جس سے تقریباً 232,972.3 ملین روپے (810.73 ملین امریکی ڈالر) کا ریونیو نقصان ہوتا ہے۔

حکومت پاکستان نے توانائی کی مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر لیوی اور 10 فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد کی ہے۔ تاہم، ایران سے پیٹرول/ڈیزل کی درآمدات ان ضوابط کی پابندی نہیں کر رہی ہیں اور یہ معاملہ اس بات کے باوجود ہے کہ بیشتر سرحدی تجارت اچھی طرح دستاویزی ہے۔ اس عدم تعمیل کے نتیجے میں حکومت کو ریونیو میں نمایاں نقصان ہو رہا ہے۔ مختلف اضلاع اور سرحدوں پر ایرانی پیٹرولیم کی درآمدات کی وجہ سے کل یومیہ ریونیو کا نقصان 744.66 ملین روپے (2.59 ملین امریکی ڈالر) ہے۔

خاص طور پر پنجگور کو روزانہ 151.2 ملین روپے، واشک کو 176.4 ملین روپے، کیچ کو 151.2 ملین روپے، چاغی کو 63 ملین روپے اور گوادر (کنٹانی) کو 202.86 ملین روپے کا نقصان ہوتا ہے، جو سب سے زیادہ یومیہ نقصان ہے۔ سالانہ بنیادوں پر پنجگور کو 3942 ملین روپے، واشک کو 4599 ملین روپے، کیچ کو 3942 ملین روپے، چاغی کو 1642.5 ملین روپے اور گوادر کو 5288.9 ملین روپے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر سالانہ آمدنی کا نقصان تقریبا 232،972.3 ملین روپے (810.73 ملین ڈالر) ہوتا ہے۔

یہ حجم پاکستان کی توانائی کی کھپت میں ایرانی پیٹرولیم کے اہم کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) پاکستان کے مطابق 2022-2023 میں قومی سطح پر توانائی کی مصنوعات (خصوصی طور پر ایم ایس، ایچ ایس ڈی اور مٹی کے تیل) کی سالانہ کھپت 13,899,139 ملین ٹن تھی۔

صوبے کے لحاظ سے توانائی کی مصنوعات کی کھپت 63.9 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ پنجاب میں رہی۔ اس کے بعد سندھ 21.3 فیصد کے ساتھ دوسرے، خیبرپختونخوا 11 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر، بلوچستان 1.5 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا جبکہ گلگلت بلتستان میں یہ شرح 1.3 فیصد اور آزاد کشمیر میں 1 فیصد رہی۔

ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی پیٹرولیم سالانہ تقریبا 3.6 بلین لیٹر کا حصہ ڈالتا ہے اور کل کھپت کا 17.4 فیصد بنتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی توانائی کی مصنوعات کی کھپت صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے۔ یہ ملک کے دیگر صوبوں کو فراہم کی جارہی ہیں کیونکہ مختلف سرحدوں پر ایران سے سپلائی بلوچستان میں توانائی کی مصنوعات کی طلب سے زیادہ ہے۔

Read Comments