بجلی معاہدے: آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اویس لغاری

07 ستمبر 2024

وزارت توانائی کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان بجلی کے غیر مستحکم نرخ پر قابو پانے کے لیے آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کررہا ہے کیونکہ گھریلو اور کاروباری ادارے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے سماجی اضطراب کو جنم دیا ہے اور 350 ارب ڈالر کی معیشت میں صنعتیں بند کردی ہیں، جو حالیہ برسوں میں دو بار سکڑ چکی ہے جبکہ مہنگائی ریکارڈ سطح پرجاپہنچی ہے ۔

پاور ڈویژن کی سربراہی کرنے والے وفاقی وزیر اویس لغاری نے رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس ملک میں بجلی کی موجودہ قیمتوں کا ڈھانچہ پائیدار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والوں اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے کیونکہ دونوں طرف واضح سمجھ بوجھ ہے کہ موجودہ صورتحال کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔

اویس لغاری نے اس بات پر زور دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو کاروباری استحکام پر مکمل سمجھوتہ کیے بغیر ایک خاص نقطے پر جھکنا ہوگا اور یہ جتنی جلدی ممکن ہو کرنا ہوگا۔

ایک دہائی قبل شدید قلت کا سامنا کرنے والے پاکستان نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی جانب سے درجنوں نجی منصوبوں کی منظوری دی تھی جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی قرض دہندگان کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ معاہدوں میں اعلی ضمانت شدہ منافع اور غیر استعمال شدہ بجلی کے لئے ادائیگی کرنے کے وعدے شامل تھے۔

تاہم، جاری اقتصادی بحران نے بجلی کی کھپت کو کم کر دیا ہے، جس سے ملک کو اضافی صلاحیت مل گئی ہے جس کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔

فنڈز کی کمی کی وجہ سے حکومت نے مقررہ اخراجات اور کیپیسٹی چارجز کو صارفین کے بلوں میں شامل کردیا ہے، جس پر گھریلو صارفین اور صنعتی انجمنوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

بجلی کے شعبے سے وابستہ چار ذرائع نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ جن معاہدوں کا مطالبہ کیا گیا ہے ان میں گارنٹی شدہ منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کو محدود کرنا اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی سے دور رہنا شامل ہے۔ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

ہفتے کو مقامی میڈیا ادارے بزنس ریکارڈر نے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا کہ کیپیسٹی ماڈل کو ٹیک اینڈ پے ماڈل میں تبدیل کرنے کے لیے 24 شرائط تجویز کی گئی ہیں۔

تاہم لغاری نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ بجلی کمپنیوں کو کوئی نیا مسودہ یا مخصوص مطالبات باضابطہ طور پر نہیں بھیجے گئے ہیں اور حکومت انہیں نئے معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سول اور پیشہ ورانہ انداز میں ان کے ساتھ بیٹھیں گے اور بات کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ہمیشہ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدوں کی ذمہ داریوں کو برقرار رکھا ہے۔ معاہدے میں ترمیم باہمی رضامندی سے ہوگی۔

مئی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے میں توانائی کے شعبے کی افادیت پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ میں بجلی کے معاہدوں پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستان پہلے ہی چین پر واجب الادا توانائی کے شعبے کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کے ساتھ ساتھ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر بات چیت شروع کر چکا ہے لیکن پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان نے بجلی کے شعبے کی سبسڈی ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

اویس لغاری نے کہا کہ موجودہ نرخ گھریلو یا تجارتی صارفین کیلئے سستی نہیں ہیں اور اس سے ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ بجلی کی قیمتیں اب علاقائی طور پر مسابقتی نہیں ہیں ، جس سے اہم برآمدات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد تجارتی صارفین کے لئے محصولات کو موجودہ 28 سینٹ سے کم کرکے 9 امریکی سینٹ فی یونٹ کرنا ہے۔

Read Comments