”الوداع پارلیمنٹ“، اختر مینگل کا استعفیٰ واپس لینے سے انکار

05 ستمبر 2024

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس آنا نہیں چاہتے کیونکہ سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے ایکس پر لکھا کہ الوداع، پارلیمنٹ- کیا ہم دوبارہ ملیں جب قانون کی بالادستی قائم ہو۔

اختر مینگل نے رواں ہفتے کے اوائل میں بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں حکمران اتحاد کی کمیٹی نے بدھ کے روز پارلیمنٹ لاجز میں ان سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے تمام تحفظات دور کیے جائیں گے اور ان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی تھی۔

تاہم بی این پی مینگل کے سربراہ نے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی محرومیوں، لاپتہ افراد کے حل طلب مسئلے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کردیا۔

بی این پی مینگل کے رہنما نے آج اپنے پیغام میں کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کا استعفیٰ قبول نہیں کریں گی کیونکہ وہ پہلے ہی قومی اسمبلی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور پارلیمنٹ میں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے عوام سے معافی مانگنی چاہیے نہ کہ ان سے۔ انہوں نے لکھا کہ ’وہ سوچتے ہیں کہ وہ مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں، مجھے اپنا ذہن تبدیل کرنے کے لیے قائل کر سکتے ہیں اور اپنی غلطیوں کے لیے معافی مانگ سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگوں کے پیاروں کو غائب کرنے سے ہونے والی تکلیف کا اعتراف کریں۔‘

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق سیاست دانوں کو سمیع اور ماہ رنگ پرحملے کی اس وقت معافی مانگنی چاہیے تھی جب وہ صرف بولنا چاہتے تھے۔

میں صرف اختر مینگل نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں لوگوں کا حصہ ہوں،جب تم ان کے ساتھ صلح کرلو گے، تو تم میرے ساتھ بھی صلح ہوجائیگی ۔

مینگل نے مزید کہا کہ وہ ذاتی طور پر کسی سے ناراض نہیں ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ میرے ضمیر نے مجھے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔

“میں نے سب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان واپس آنے کی وجہ اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا جو انہیں مہینوں سے پریشان کر رہا تھا۔

“میں اب آزاد ہوں. مجھے امید ہے کہ بہت دیر ہونے سے پہلے دوسرے لوگ اس بات کو سمجھ لیں گے۔

Read Comments