جمعیت علمائے اسلام (جو یو آئی، ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت دی جائے تو سیکورٹی کی صورتحال معمول پر آ سکتی ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمان نے پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ وہ دونوں صوبوں کے نارض لوگ کے ساتھ بات چیت کرے اور ان کے خدشات کو دور کرے۔
فضل الرحمان کا یہ بیان 26 اگست کو ہونے والے دہشتگرد حملوں میں 73 افراد کے جاں بحق ہونے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر بڑھتی ہوئی بے چینی کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپز) کے ڈیجیٹل ڈیٹا بیس کے مطابق اگست میں ملک بھر میں دہشت گردی کے حملوں کی تعداد 38 سے بڑھ کر 59 ہو گئی۔ زیادہ تر حملے کے پی اور بلوچستان میں ہوئے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی میں بدامنی کی وجہ سے حکومتی رٹ ختم ہو گئی ہے اور عسکریت پسند وہاں حکومت کر رہے ہیں اور ٹیکس جمع کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند دیہاتوں کا دورہ کر رہے ہیں، سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں، اور راکٹ لانچرز اور خصوصی آلات سے لیس ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دونوں صوبوں میں امن کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشت گردی کے سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے حکومتی اور اپوزیشن بینچز پر بیٹھے ارکان پارلیمنٹ لفظی جھڑپ میں مصروف ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن اس حد تک جاتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ چھوڑنے کی بات کرنا شروع کر دیتی ہے جبکہ دوسرا فریق (حکومت) ایسے بیانات دیتا ہے کہ ہم ان سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور ہم ریاست کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔
اے این پی رہنماؤں زاہد خان اور حاجی غلام احمد بلور کے سیاست چھوڑنے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاست دانوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ باخبر، تجربہ کار اور زیرک سیاستدانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جگہ لینے والے نئے چہروں کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے۔