مہنگائی میں کمی

04 ستمبر 2024

ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) نے اگست کے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کا تخمینہ 9.6 فیصد لگایا ہے جو جولائی کے 11.1 فیصد کے اعدادوشمار سے 1.5 فیصد کم ہے۔ بنیادی افراط زر (نان فوڈ اور نان انرجی) اگست میں جولائی کی شرح 11.7 فیصد سے گھٹ کر 10.2 فیصد ہوگئی جو سی پی آئی میں کمی سے بالکل مماثلت رکھتی ہے۔

اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ مئی 2024 کے بعد سے سی پی آئی اور بنیادی افراط زر کی پیمائش میں ایک نیا رجحان واضح تھا: سی پی آئی اور بنیادی افراط زر کی شرح میں فرق ایک فیصد پوائنٹ سے بھی کم ہوگیا جس کا مطلب یہ ہے کہ درآمدشدہ افراط زر کم سے کم تھا اور دباؤ بنیادی طور پر مقامی افراط زر سے تھا۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ افراط زر کی شرح کم از کم 3 سے 4 فیصد کم ظاہر کی گئی ہے جس کی ایک وجہ میٹروپولیٹن مراکز کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی مارکیٹوں کو اہمیت دینا اور جزوی طور پر یوٹیلیٹی اسٹورز (سبسڈی والے) میں قیمت کے استعمال میں دانستہ ہیرا پھیری ہے جہاں بہت سی ضروری اشیاء اسٹاک سے باہر ہیں یا انسانی استعمال کے قابل نہیں ہیں جیسے کہ گندم اورکچھ معاملات میں فروخت پر اضافی اشیاء کی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود یہ اعدادوشمار سی پی آئی اور بنیادی افراط زر کے لحاظ سے نیچے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

درآمدی افراط زر روپے اور ڈالر کی برابری کا ایک فنکشن ہے، جو حیرت انگیز طور پر مستقل رہی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ کیوں سی پی آئی نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ تاہم، جو دو متعلقہ عوامل باعث تشویش ہیں، وہ یہ ہیں کہ سی پی آئی کے حوالے سے ان پر غور نہیں کیا گیا: (i) رواں سال کے بجٹ میں ٹیکسز میں نمایاں اضافہ کیا گیا، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے اور سیلز ٹیکس پراور کل ٹیکسز کا تخمینہ گزشتہ سال کی نظرثانی شدہ تخمینوں کے مقابلے میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ لگایا گیا – جو 9252 ارب روپے سے بڑھ کر 12970 ارب روپے ہو گیا۔

اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ گھریلو آمدن میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خریداری کم کی جارہی ہے یا مجموعی طلب میں کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ نوکری پیشہ افراد کے معیار زندگی میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ گزشتہ سال غربت کی سطح میں 41 فیصد اضافہ کیوں ہوا۔ (ii) سولہ اگست 2024 کو ذخائر 9.2 ارب ڈالر تھے تاہم حکومت کو بیرونی ذرائع سے تجویز کیے گئے 2 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے اور وہ فعال طور پر اس رقم کے حصول کی تلاش میں ہے جبکہ یہ 4 ارب ڈالر کے غیر ملکی کمرشل بینک قرضوں کے لئے بھی مارکیٹ میں ہے، جن پر سود کی شرح زیادہ ہے اور قسط کی مدت کم ہے – ایسے عوامل جو قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ کریں گے اور مالی خسارے پر منفی اثرات مرتب کریں گے جو کہ انتہائی مہنگائی کی پالیسی ہے۔

بنیادی مہنگائی میں کمی آئی ہے جو کہ اسٹیٹ بینک پر دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ موجودہ 19.5 فیصد کی بلند شرح سود پر دوبارہ نظرثانی کرے – جو سی پی آئی سے 9.9 فیصد زیادہ ہے(رضا باقر کے دور میں اسٹیٹ بینک نے اپنے گورنر کی حیثیت سے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو سی پی آئی سے منسلک کیا)اور بنیادی مہنگائی سے 9.3 فیصد زیادہ ہے (جو کہ تمام دیگر گورنرز نے شرح سود سے منسلک کیا تھا)۔

سوال یہ ہے کہ کیا 12 ستمبر کو مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اگلے شیڈول اجلاس میں شرح سود میں کسی کمی کی منظوری عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم دے گی، جب کہ قرض کی منظوری آئی ایم ایف بورڈ سے ابھی تک زیر التوا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکام نے 12 جولائی 2024 کو اسٹاف لیول کے معاہدے کے وقت طے شدہ تمام شرائط کو ابھی تک پورا نہیں کیا ہے۔ اور بہترین صورت میں، زیادہ شرح سود ان شرائط میں سے ایک ہو سکتی ہے، یا بدترین صورت میں، یہ بورڈ کی منظوری سے قبل ایک اور پیشگی شرط بن سکتی ہے، جو قسط جاری کرنے کے لئے ایک شرط ہے۔

افراط زر کے باعث ہر کمائے گئے روپے کی قدر کم ہو رہی ہو اور ساتھ ہی زائد ٹیکسز کی وجہ سے اصل آمدن بھی سکڑ رہی ہو تو عوام میں بے اطمینانی کی سطح کم نہیں ہو گی۔

حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی موجودہ اخراجات کو کم کر کے آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر لیوریج پیدا کریں، سبسڈی صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کو دیں تاکہ بہتر ہدف بندی ہو سکے، اور مشکلات کا شکار عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بجائے دوسرے ذرائع تلاش کریں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments