انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا معمہ

01 ستمبر 2024

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانیوں کو نہ صرف اپنے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کے بہتر ہونے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑے گا بلکہ اس کے ساتھ ہی اس بات کو سمجھنے کے لیے بھی انتظار کرنا ہوگا کہ اس رکاوٹ کی اصل وجہ کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے سب میرین کیبلز کی خرابی کے بیانیے پر تاخیر سے آنے والی وضاحت اب بہت سے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ کچھ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں (آئی ایس پیز) نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آن لائن ٹریفک کی نگرانی کی کوشش، بشمول بدنام زمانہ فائر وال، رفتار میں کمی کا سبب بن رہی ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ سرکاری رپورٹس کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار ”ایک اور مہینے“ تک سست رہے گی۔ اس سے بلاشبہ زیادہ تر جگہوں پر کام کی رفتار متاثر ہوگی، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے ملک کی ابھرتی ہوئی آئی ٹی انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچے گا اور خزانے کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوگا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے، خاص طور پر اگر یہ حقیقت میں حکومت کی جانب سے لوگوں کے آن لائن سرگرمیوں پر کنٹرول کرنے کی خواہش کا نتیجہ ہو۔

حکومت کو سب سے پہلے غیر یقینی صورتحال کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہفتوں تک صورت حال کو برقرار رکھنا اور پھر ایک ایسی وضاحت جاری کرنا جس سے زیادہ تر لوگ، یہاں تک کہ ماہرین بھی، شک یا اختلاف کرتے ہیں، ناقابل قبول ہے۔

حکومتی مشینری اور ٹیلی کام سیکٹر کو مسئلے کی گہرائی، اسے حل کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات، اور اس وقت کے بارے میں واضح رپورٹس جاری کرنی چاہئیں جب چیزیں معمول پر آجائیں گی۔

ہفتوں سے ایک پریمیئر آن لائن مارکیٹ پلیس اپنے صارفین کو پاکستانی فری لانسرز کے ساتھ کاروبار کرنے کے خلاف خبردار کررہا ہے کیونکہ مقامی انٹرنیٹ کی سست رفتار ٹائم لائنز کو مشکل بنا سکتی ہے اور پلیٹ فارم کی ساکھ کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے آئی ٹی پیشہ ور افراد کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں کوئی لفظ نہیں بولا گیا ہے۔

آخر کار یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ نئے وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر آئی ٹی صنعت ہماری معاشی/مالی پوزیشن کی تشکیل نو کریگی، جیسے کہ تقریباً تمام وزرائے خزانہ نے اس سے پہلے کہا تھا۔

اب ہم جانتے ہیں کہ یہ دعویٰ، بالکل اسی طرح جیسے ایک مستقل اور منصفانہ ٹیکس نظام کا وعدہ، صرف باتیں ہی تھیں جن کے پیچھے کوئی ٹھوس پالیسی یا حتیٰ کہ مناسب ارادہ بھی نہیں تھا۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہماری اپنی حکومت ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے جب کہ پوری دنیا آئی ٹی کو اپنا رہی ہے اور اے آئی ٹیکنالوجی میں تاریخی ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

چند دہائیاں پہلے، جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں آئی ٹی کی ترقی زیادہ یا کم یکساں تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ تقریباً تمام ممالک آگے بڑھ گئے ہیں سوائے پاکستان کے۔ پہلے تو ہمارے قائدین نئے رجحانات کی نشاندہی کرنے اور مستقبل کی صنعتوں کو فروغ دینے میں ناکام رہے ۔

اب، اگر فائر وال کے بارے میں دعوے سچے ہیں، تو حکومت خود شاید ایک قدم آگے بڑھ چکی ہے اور ممکنہ طور پر پچھلے چند سالوں میں جو تھوڑی بہت رفتار پیدا ہوئی ہے اسے بھی ختم کرنے میں ملوث ہے۔

عوام ایک بار پھر وضاحت کے مستحق ہیں اور اس کا پُر زور مطالبہ کرتے ہیں، اور حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ وضاحت فراہم کرے۔ اب جب حکومت نے یہ دیکھ لیا ہے کہ آئی ٹی کے شعبے کو متاثر کرنے کے لیے کتنی معمولی بات کافی ہو سکتی ہے، تو اسے نہ صرف اس شعبے کو مضبوط کرنے پر غور کرنا چاہیے بلکہ اس کی وسعت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس سے ایک سلسلہ وار مثبت تبدیلی شروع ہوگی، جس کا آغاز اعلیٰ تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی تیاری سے ہوگا اور اختتام ایک ایسی مارکیٹ کے قیام پر ہوگا جو انہیں جذب کر سکے۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ حکمران جماعت کی ساکھ کے لیے بھی بہتر ثابت ہوگا۔ تاہم، ان تمام اہداف کا حصول قابل اعتماد انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments