گورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے 4 ارب ڈالر تک اکھٹا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جب کہ پاکستان 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ بورڈ کی منظوری کے لیے درکار 2 ارب ڈالر کی اضافی بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے آخری مرحلے میں ہے جس پر 12 جولائی 2024 کو عملے کی سطح کا معاہدہ (ایس ایل اے) طے پایا تھا۔
تین مشاہدات قابل ذکر ہیں۔ سب سے پہلے بیرون ملک کمرشل بینکوں سے بجٹ میں مختص کی گئی اصل رقم 3,779 ملین ڈالر تھی لہذا یا تو گورنر اسٹیٹ بینک نے اس رقم کو بڑھا کر 4 ارب ڈالر تک پہنچا دیا یا پھر مالی سال کے صرف 2 ماہ میں ہی ضرورت 221 ملین ڈالر بڑھ گئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نگران وزیرخزانہ نے گزشتہ سال انکشاف کیا تھا کہ حکومت سکوک یا یورو بانڈز جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی بیرون ملک بینکوں سے کمرشل قرضے حاصل کر سکتی ہے کیونکہ تین بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے ملک کی خراب ریٹنگ کی وجہ سے شرح سود بہت زیادہ ہے۔
فِچ نے ایس ایل اے کے بعد ای ایف ایف پر پاکستان کی ریٹنگ کو سی سی سی مائنس سے سی سی سی پلس تک اپ گریڈ کردیا ہے جو بہت زیادہ کریڈٹ رسک کو ظاہر کرتا ہے، یہ قریب قریب ڈیفالٹ کی حد سے بالکل اوپر ہے۔
موڈیز نے پاکستان کی درجہ بندی رواں سال فروری سے سی اے اے 3 سے بڑھا کر بدھ (کل) کو سی اے اے 2 کردی جس سے خطرات کے توازن کی عکاسی ہوتی ہے لیکن متنبہ کیا کہ اصلاحات کے نفاذ کو برقرار رکھنے کی حکومت کی اہلیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے - یہ غیر یقینی صورتحال کچھ نئے ٹیکس اقدامات اور توانائی نرخوں میں اضافے کے خلاف تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے 22 دسمبر 2022 سے پاکستان کی ریٹنگ سی پلس سے اپ گریڈ نہیں کی ہے۔
تاہم دو ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے چھوٹی اپ گریڈز کے باوجود جو کہ آئی ایم ایف بورڈ کی طرف سے ای ایف ایف کی منظوری پر مبنی ہیں جو ابھی تک زیرِ التواء ہے،خطرات بلند ہی سمجھے جاتے ہیں اور اس لئے تجارتی بینکوں کی طرف سے پیش کردہ سود کی شرح میں نمایاں کمی کی امید نہیں ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے انٹرویو سے یہ واضح ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے بینک فنڈز فراہم کریں گے، مگر یہ واضح نہیں کہ آیا یہ بینک ایسے نرخ پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے جو مغربی بینکوں کی پیشکشوں سے زیادہ مسابقتی ہوں۔ اگرچہ پاکستان تین دوست ممالک، جن میں دو مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں، پر انحصار کرتا ہے کہ وہ رول اوورز، سیف ڈپازٹ اور دیگر قرضے فراہم کریں جو دوسرے بینکوں کی پیشکشوں سے کم نرخوں پر ہوں، مگر تجارتی بینک، جہاں کہی بھی ان کے ہیڈکوارٹر ہوں، اپنے بنیادی مقصد ”فیصلے خالصتا اقتصادی بنیادوں پر ہونے چاہئیں“ کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
گورنراسٹیٹ بینک نے حال ہی میں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بریفنگ دی ہے جس کے دوران انہوں نے کہا کہ رواں سال کے لیے درکار مجموعی ادائیگی 26.2 ارب ڈالر ہے جس میں سے 12.3 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں جن میں سے 4 ارب ڈالر ملک میں واپس آنے کی توقع ہے۔
ای اے ڈی نے جاری مالی سال کے پہلے ماہ کے دوران حاصل کردہ غیر ملکی امداد کا چارٹ جاری کردیا ہے جس میں 436.39 ملین ڈالر موصول ہوئے ہیں، جو کل بجٹ کے 19,393.16 ملین ڈالر کا 0.8 فیصد ہے۔ اس میں زیادہ تر رقم آئی ڈی اے (111.88 ملین ڈالر) کی طرف سے دی گئی، اس کے بعد چین (96.76 ملین ڈالر)، اے ڈی بی (54.05 ملین ڈالر)، اور آئی بی آر ڈی (20.54 ملین ڈالر) شامل ہیں۔ ای ایف ایف کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کو اطمینان فراہم کرنے کے لیے انفلوز میں خاطر خواہ اضافہ ضروری ہے۔
یہ واضح ہے کہ ملک قرضوں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور جب تک ہم اپنے اخراجات، خاص طور پر موجودہ اخراجات کو کم نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ٹیکس وصولی کو بہتر نہیں بناتے، ہم اس گڑھے سے باہر نہیں نکل پائیں گے جس میں ہم نے مزید قرضے لے کر خود کو پھنسا لیا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024