ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت

25 اگست 2024

وزیر اعظم شہباز شریف کا کاروباری برادری بالخصوص لاہور چیمبر آف کامرس کے ساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ وہ بطور چیمبر صدر بھی اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں جبکہ کاروباری اور معاشی امور سے اچھی طرح واقف ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بیان قابل ذکر ہے کیونکہ موجودہ ٹیکس نظام ملک بھر کی کاروباری برادری کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے اور ان مسائل کا حل بہت ضروری ہے۔

ٹیکسیشن، حالانکہ اکثر اسے ایک خشک موضوع سمجھا جاتا ہے، ہمیشہ میرے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے اور میں نے اس شعبے میں نمایاں کوششیں کی ہیں۔ پاکستان میں، ٹیکس کا نظام، ٹیکسوں کی تعداد، ان کے نرخ، اور جمع کرنے کے طریقے ہمیشہ حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان تنازعہ کا باعث رہے ہیں۔ میرے ذاتی تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کاروباری برادری واقعی ٹیکس دینا چاہتی ہے لیکن اکثر نظام سے خوفزدہ ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 119، سندھ میں 82، خیبر پختونخواہ میں 54 اور بلوچستان میں 12 اقسام کے ٹیکسز کا اطلاق ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ٹیکسوں کے ساتھ، ہم کیسے ممکنہ طور پر ان لوگوں کو رضاکارانہ طور پر سامنے آنے اور اس نظام میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتے ہیں جو بوجھل نظر آتا ہے؟

اس کے علاوہ موجودہ پالیسیوں کا ہدف صرف وہ لوگ ہیں جو پہلے سے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں جبکہ قانون سازی کا بنیادی ہدف ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو ابھی تک اس نیٹ میں شامل نہیں ہیں۔لاہور چیمبر میں مجھے باقاعدگی سے ٹیکس نظام سے متعلق تشویشناک رپورٹس موصول ہوتی ہیں۔ میں نے براہِ راست وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھا ہے اور ان مسائل کے حل کی درخواست کی ہے۔ بصور ت دیگر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

مثال کے طور پر، 7 مارچ 2024 کو جاری ہونے والا ایس آر او 350 (I) /2024 کاروباری برادری کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر چکا ہے۔ میں نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ اس ایس آر او کی وجہ سے کاروباری حضرات کے لیے سیلز ٹیکس ریٹرن فائل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس میں خریداروں کے سیلز ٹیکس ریٹرن کو ان کے سپلائرز کی تعمیل کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔

اگر کوئی سپلائر اپنا ریٹرن فائل نہیں کرتا تو خریدار یا تو اپنا ریٹرن فائل نہیں کر سکتا یا پھر پہلے سے ادا کیا گیا ان پٹ ٹیکس کھو دیتا ہے۔ حال ہی میں کاروباری افراد کو ریٹرن فائل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے اپنا سیلز ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کیا تھا۔ میں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ اس ایس آر او کے نفاذ پر نظر ثانی کریں اور متعلقہ حکام کو فوری کارروائی کی ہدایت کریں۔

جب ہم ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے، تو خبر آئی کہ ایس آر او 428 (I) /2024 کے تحت الیکٹرانک کمپلائنس کے لیے بھاری فیسیں عائد کر دی گئی ہیں۔ میں نے وزیر اعظم کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ یہ چارجز کاروباری برادری پر مزید بوجھ ڈالیں گے۔پاکستان کا کاروباری شعبہ پہلے ہی معاشی چیلنجز جیسے کہ مہنگائی، کرنسی کی گراوٹ، توانائی کے بلند اخراجات، اور زیادہ شرح سود کا سامنا کر رہا ہے۔

ایسے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے الیکٹرانک انوائسنگ سسٹم کے ساتھ مربوط ہونے کیلئے واحد لائسنس یافتہ ادارے کی طرف سے عائد کی جانے والی بھاری فیسیں تشویشناک ہیں۔ 2024 کے فنانس ایکٹ میں کی گئی ترامیم، ایس آر او 350 (I) /2024 اور ایس آر او 1842 (I) /2023 کے ساتھ مل کر پہلے ہی کاروباری برادری کے لیے مشکلات پیدا کر چکی ہیں۔

ایک بار کی فیس 15 لاکھ روپے اور سالانہ فیس 35 لاکھ روپے، یا 60 روپے فی انوائس، کاروباری شعبے کے لیے حد سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہے۔

ایسی فیسیں کئی کاروباروں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیں گی؛ لہٰذا ان اقدامات پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ آن لائن سسٹم سے مربوط ہونے کے چارجز اور اس کی دیکھ بھال کے اخراجات کو کم سے کم کیا جانا چاہیے تاکہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہلکا ہو سکے۔

جب ہم ٹیکس ادا کرنے میں آسانی اور قواعد و ضوابط کی تعمیل کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی تاجروں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح 30 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے۔ حتیٰ کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ شرح عموماً 15 فیصد سے 20 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔

یہ ایک سیدھا سا اصول ہے: ہر شخص جس کی آمدنی مناسب ہو، اسے ملک کے نظام کو چلانے کے لیے ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔ تاہم پاکستان میں پیچیدہ ٹیکس نظام لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے روکتا ہے جبکہ جو لوگ پہلے سے ہی اس میں شامل ہیں ان پر بھاری بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن ٹیکس دہندگان کی تعداد اب بھی نہایت کم ہے۔ ٹیکس دہندگان کی کم تعداد کی وجہ سے حکومت کو درکار ریونیو جمع نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں توانائی، انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم، اور ماحولیات کے شعبوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے فنڈز ناکافی رہتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی معاشی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے ریونیو نظام میں اصلاحات متعارف کروانی ہوں گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ٹیکس کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔

جبکہ بین الاقوامی قرض دہندہ ادارے سخت شرائط عائد کرتے ہیں، وہ کم از کم پاکستان کے ٹیکس نظام کو وسعت دینے، زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے، اور زراعت جیسے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی حمایت کرتے ہیں، جو اس وقت کوئی حصہ نہیں ڈالتے۔

ایک اور تجویز یہ ہے کہ ٹیکسوں کی تعداد اور شرحوں کو کم کیا جائے جو کاروباری برادری کے لیے تشویش کا باعث بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ، بالواسطہ ٹیکسوں کو ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ان لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں جو اس بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، بجلی کے بلوں میں من مانی ٹیکس شامل کر دیے جاتے ہیں، اور یہاں تک کہ سب سے غریب افراد کو بھی انہیں ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے پاس موجود ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ کو وسعت دے اور ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرے جو پہلے سے اس میں شامل ہیں۔ ایسا کرنے سے، ممکن ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر موجود افراد کو اس میں شامل ہونے پر قائل کیا جا سکے۔ تاہم، یہ سب مستقل پالیسیوں کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کو مقامی سرمایہ کاری کے تحفظ اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے طویل المدتی اور درمیانی مدت کی پالیسیاں متعارف کرانی چاہئیں اور ساتھ ہی پانچ سالہ منصوبے بھی بنائے جانے چاہئیں۔

ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے حکومت بآسانی ڈیٹا اکٹھا کر سکتی ہے اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کمپنیوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ اگرچہ ہر سال ٹیکس ریونیو کے اہداف میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے قابل عمل پالیسیاں بھی ہونی چاہئیں۔ اگر یہ اقدامات نہیں کیے گئے تو ٹیکس اہداف حاصل کرنا مشکل رہے گا اور کاروباری برادری اور حکومت کے درمیان فاصلہ برقرار رہے گا۔

Read Comments