دیامر بھاشا منصوبے کی فنانسنگ کیلئے مختلف آپشنز زیرغور

24 اگست 2024

وزارت آبی وسائل کے باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وفاقی حکومت مبینہ طور پر دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی فنانسنگ کے لیے مختلف آپشنز پر غور کررہی ہے کیونکہ ترقیاتی شراکت دار تقریبا 10 ارب ڈالر (ٹرانسمیشن لائن کی 8 ارب ڈالر + 2 ارب ڈالر کی لاگت) کی فنانسنگ سے ہچکچا رہے ہیں۔

یہ 19 اگست 2024 کو وزیراعظم ہاؤس میں وزیر برائے اقتصادی امور اور اسٹیبلشمنٹ، احمد چیمہ کی زیر صدارت ہونے والے بین الوزارتی اجلاس کا خلاصہ تھا۔

وزیر اقتصادی امور نے وفاقی کابینہ کے ارکان کی طرف سے دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کی مستقبل کی پائیداری کے بارے میں ظاہر کیے گئے خدشات کا ذکر کیا، خاص طور پر اس کے بڑے مالیاتی تقاضوں اور عمل درآمد میں تاخیر کے پیش نظر، خصوصاً جب کہ مالیاتی اختتام ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کواس تزویراتی منصوبے میں آگے بڑھنے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے اندرون ملک جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک نے بتایا کہ منصوبے کی کل لاگت تقریبا 8 ارب ڈالر ہے اور ٹرانسمیشن لائن کی لاگت اس رقم میں شامل کی جائے گی۔ انہوں نے ملک کے آبی ذخائر کے لئے منصوبے کی اسٹریٹجک اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔

چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے منصوبے کے بارے میں ایک پریزنٹیشن پیش کی جس میں منصوبے سے پانی ذخیرہ کرنے کے فوائد یعنی 6.4 ملین ایکڑ فٹ (ملین ایکڑ فٹ) اور پن بجلی پیدا ہوگی جو سالانہ 18.1 بلین یونٹ پیدا ہوگی۔

وفاقی وزیر برائے ای اے ڈی/چیئر کے سوال پر چیئرمین واپڈا نے جواب دیا کہ گزشتہ سال کے ڈالر ریٹ کے مطابق فی یونٹ لاگت 15 روپے ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے سے طے شدہ 500 ملین ڈالر کے علاوہ غیر ملکی مالیات کی ضروریات 3.5 ارب ڈالر ہیں، جن میں ایکوٹی 1.2 ارب ڈالر اور غیر ملکی کرنسی میں قرضہ 2.3 ارب ڈالر شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو واپڈا کے موجودہ ٹیرف ریونیو سے پن بجلی کی پیداوار سے حاصل کیا جا رہا ہے، منصوبے کے بجلی کی پیداواری لاگت ہی صارفین سے وصول کی جائے گی۔

سیکرٹری ای اے ڈی ڈی کاظم نیاز نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ترقیاتی شراکت دار جغرافیائی تزویراتی وجوہات کی بنا ء پر اس منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ دوطرفہ شراکت دار، عام طور پر، ایسے منصوبوں کی مالی اعانت سے ہچکچاتے ہیں جن کیلئے اتنی بڑی مقدار میں فنانسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ جون 2024 میں اوپیک فنڈ کے ترقیاتی فورم میں حالیہ کوششوں کے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور توقع ہے کہ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ (ایس ایف ڈی) کا ایک مشن ستمبر میں اس منصوبے کا دورہ کرے گا۔

ذرائع نے سیکریٹری ای اے ڈی کے حوالے سے بتایا کہ ایک بار جب ہم اس جانب قدم آگے بڑھائیں گے توایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) یا چین سے بھی فنڈنگ کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل نے کہا کہ اگر آئندہ 10 سال تک سالانہ 6 فیصد یا 3 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کی جاتی ہے اور اگر پہلے سے طے شدہ منصوبوں میں تاخیر نہیں ہوتی ہے تو پاکستان کے پاس اضافی بجلی ہونے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ٹرانسمیشن لائن کی فزیبلٹی اسٹڈی جلد کی جاسکتی ہے تاکہ حکومت کو اس بات کا درست اندازہ ہوسکے کہ منصوبے کی کل فنانسنگ لاگت کتنی ہوگی۔ ٹرانسمیشن لائن بروقت نصب نہ ہونے سے اضافی اخراجات ہوسکتے ہیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ واپڈا، وزارت آبی وسائل اور بجلی کے نمائندوں پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا جو اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے حوالے سے سفارشات پیش کرے گا۔ ورکنگ گروپ دو ہفتوں کے اندر اپنی سفارشات پیش کرے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments