پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کے اس اعلان کے بعد کہ پارٹی جمعرات کو ترنول میں جلسہ کرے گی، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسلام آباد کو ملک کے باقی حصوں سے تقریباً کاٹ ہی دیا تھا۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب انتظامیہ نے آخری لمحے میں اپنے پہلے سے دیے گئے اجازت نامے کو منسوخ کردیا حالانکہ یہ اجازت نامہ عدالتی حکم کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
بلیوایریا مارگلہ روڈ میں عوام کے لیے صرف ایک داخلی راستہ کھلا تھا جہاں جمعرات کی صبح کم از کم تین کلومیٹر لمبی قطار لگی ہوئی تھی جس میں زیادہ تر سرکاری افسران شامل تھے جو اپنے دفاتر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ سپریم کورٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرح تمام وزارتوں کے سیکریٹریٹ کانسٹیٹیوشن ایونیو پر واقع ہیں۔
دارالحکومت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اصل معاشی لاگت کا بار بار حساب لگایا گیا ہے کیونکہ تمام پچھلی انتظامیہ نے جلسوں کو روکنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کا سہارا لیا ہے اور اس کے بہت زیادہ ہنگامہ خیز دھرنے میں تبدیل ہونے کے امکان کو روکا ہے -جس کی لاگت سیکڑوں ارب روپے ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس قسم کی سرگرمیوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے، یہ امید کی جا سکتی تھی کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے جلسوں/دھرنوں سے نمٹنے کا کوئی زیادہ مؤثر طریقہ وضع کرلیا ہوتا بجائے اس کے کہ دارالحکومت کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ موجودہ سنگین معاشی حالات اب اس طرح کے نقصانات برداشت نہیں کرسکتے۔
انٹرنیٹ سروس بھی حالیہ ہفتوں میں سست ہو گئی ہے جس کے بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل حفیظ الرحمٰن (ریٹائرڈ) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بتایا کہ اتھارٹی کو سب میرین کنسورشیم سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خرابی 27 اگست تک ٹھیک ہو جائے گی۔ اس دعوے کو ملک بھر میں چیلنج کیا جارہا ہے کیونکہ عام طور پر توقع کی جاتی ہے کہ سب میرین کنسورشیم خط کے بجائے ٹیکسٹ میسج یا ای میل کے ذریعے اطلاع دے گا۔
حالیہ مہینوں میں اسٹیک ہولڈرز سوشل میڈیا اپ لوڈز کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دے رہے ہیں اور اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا - ایک ایسا وعدہ جس کے لئے نیشنل فائر وال سسٹم کی تنصیب اور / یا اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی جسے پی ٹی اے چیئرمین نے تسلیم کیا ۔
یہ رائے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ کے 18 اگست کے بیان سے متضاد ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سست انٹرنیٹ سروس کی وجہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) کا زیادہ استعمال ہے، جو مقامی انٹرنیٹ سروسز کو بائی پاس کردیتے ہیں جس سے نیٹ اور موبائل انٹرنیٹ کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وی پی این کے بڑھتے استعمال کی وجہ، جس میں اضافے کا تخمینہ اس سال 131 فیصد سے زیادہ لگایا گیا ہے، حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس خاص طور پر ایکس پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی وجہ سے ہے ، حالانکہ وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ارکان وی پی این کے ذریعے پلیٹ فارم (ایکس)کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے علی احسن نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ سست روی نے مقامی کاروبار پر منفی اثر ڈالا ہے جو بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ بات چیت اور آپریشنز کو منظم کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں، انہوں نے 300 ملین ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نیشنل فائر وال کی غیر ذمہ دارانہ تنصیب دیکھتے ہیں جہاں آئی ٹی انڈسٹری کےک پھلنے پھولنے سے پہلے ہی اس کا گلا گھونٹے جانے کا خدشہ ہے ۔ انٹرنیٹ انڈسٹری کے اعتماد اورمعیارکے ساتھ مجموعی قومی مفاد میں ہے، اس کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی شخص کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
یہ رکاوٹیں محض تکلیف دہ مسائل نہیں ہیں بلکہ صنعت کی بقا پر براہ راست، واضح اور جارحانہ حملے ہیں—جو مالیاتی نقصان پہنچارہے ہیں جس کا تخمینہ 300 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ مزید تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ یقیناً یہ ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ بہتر سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا جائیگا اور جو لوگ معیشت ہر ایسے فیصلے کے نقصانات کے بارے میں علم نہیں رکھتے انہیں مجبور کیا جائیگا کہ وہ کسی بھی ایسی پالیسی پر عملدرآمد سے پہلے متعلقہ حکام اور شعبے کے ماہرین کے ساتھ مشاورت کریں ،ایسی پالیسیاں تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہیں ۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024