پنجاب کی بجلی پر سیاست

20 اگست 2024

پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب میں 201 سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے لیے 14 روپے فی یونٹ کمی کرنے کا فیصلہ صوبائی خزانے میں 45 ارب روپے کی غیر بجٹ لاگت سے کیا گیا ہے۔ یہ صوبے کے بجٹ میں مختص کردہ 294 ارب روپے کے وسائل کا تقریباً 15 فیصد ہے۔

یہ اعلان نیپرا کے ایک ہفتہ قبل 2.56 روپے فی یونٹ اضافے کے فیصلے کے بعد کیا گیا جو کہ 7 ارب ڈالرز کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 12 جولائی 2024 کو طے شدہ اسٹاف لیول معاہدے کی عکاسی کرتا ہے اور جس کی منظوری بورڈ کی طرف سے کچھ ’پہلے‘ کی شرائط پوری کرنے کے بعد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ، یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے جو کم اور درمیانے درجے کی آمدنی والے افراد کی زندگیوں پر برا اثر ڈال رہی ہے اور ان کے کھانے پینے کے بجٹ کو پورا کرنا مشکل بنا رہی ہے۔

عام لوگوں کی آمدنی میں کمی — سوائے 7 فیصد کل ورک فورس کے جو کہ ٹیکس دہندگان کے خرچے پر تنخواہیں وصول کرتی ہے اور جسے افراطِ زر کے اثرات سے بچانے کے لیے تنخواہوں میں زیادہ اضافہ دیا گیا ہے — اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ متفقہ یوٹیلٹی کمپنیوں کی جانب سے لاگت کی مکمل وصولی کے حوالے سے انتظامی اقدامات ہیں۔

آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ صوبے اپنی ٹیکس وصولی کی کوششوں کو بڑھانے کیلئے اقدامات کریں گے، جس میں خدمات پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس شامل ہیں۔

اس حوالے سے تمام صوبے وفاقی پرسنل اور کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام کے ساتھ قانون سازی میں تبدیلیوں کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2025 سے ہوگا۔… توانائی شعبے کی کارکردگی کو بحال کرنا اور مالیاتی خطرات کو کم کرنا، توانائی کی قیمتوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ، فیصلہ کن لاگت کم کرنے والے اصلاحات اور اضافی غیر ضروری پیداواری صلاحیت کے پھیلاؤ سے گریز کے ذریعے کیا جائیگا۔

حکام ٹارگٹڈ سبسڈی اصلاحات کرنے اور گھرانوں کو دی جانے والی کراس سبسڈیز کی جگہ براہ راست اور ٹارگٹڈ بی آئی ایس پی سپورٹ فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

نجکاری شدہ کے-الیکٹرک کو 174 ارب روپے کی بجٹ میں رقم فراہم کی گئی ہے، اور کے-الیکٹرک کو صوبائی سبسڈی دینا وفاقی حکومت کے ڈسکوز کی نجکاری کے ذریعے کارکردگی بڑھانے کے مقصد کو مزید متاثر کرے گا - یہ ایک ایسا عنصر ہے جو سندھ حکومت کی جانب سے اسی اقدام کے اٹھائے جانے کے خلاف ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا اعلان ان شرائط میں سے کسی پر پورا نہیں اترتا: (i) فی الوقت بجلی شعبے کیلئے بجٹ میں مختص وفاقی سبسڈی کا کل حجم 1.6 ٹریلین روپے سے تھوڑا زیادہ ہے، جس میں فیڈرل ایکولائزیشن سبسڈی بھی شامل ہے جسے واپڈا کی تقسیم کے بعد فوری طور پر دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری شدہ کے-الیکٹرک کو 174 ارب روپے کے بجٹ میں رقم فراہم کی گئی ہےاور کےالیکٹرک کو صوبائی سبسڈی دینا وفاقی حکومت کے ڈسکوز کی نجکاری کے ذریعے کارکردگی بڑھانے کے مقصد کو مزید متاثر کرے گا - یہ ایک ایسا عنصر ہے جو سندھ حکومت کی جانب سے اسی اقدام کے اٹھائے جانے کے خلاف ہونا چاہیے۔ (ii) یہ واضح نہیں ہے کہ 45 ارب روپے کی سبسڈی کیلئے کون سے اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی ، حالانکہ یہ مشکوک ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی دوسری مفت اسکیمیں جیسے خواتین طلباء کیلئے لیپ ٹاپس اور اسکوٹرز، متاثر ہوں گی یا نہیں۔ اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا اس کا پنجاب کے بجٹ شدہ 630 ارب روپے کے صوبائی سرپلس پر کوئی اثر پڑے گا جو وفاقی حکومت اور فنڈ کے ساتھ طے پایا ہے۔(iii) آئی ایم ایف کے ساتھ یہ اتفاق ہوا تھا کہ سبسڈیز کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہدف بنایا جائے، جو یہاں نہیں ہو رہا ہے اور یہ بلاشبہ کثیرالجہتی اور دوطرفہ امداد دہندگان کے درمیان خاصی تشویش پیدا کرے گا۔ اور(iv)موجودہ مالی سال کے لیے پنجاب کے بجٹ میں گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ تخمینے سے اپنے وسائل کا ہدف 25 فیصد بڑھایا گیا جو کہ گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں 30 فیصد ہے، جس سے وسائل کی زیادتی کا رجحان ظاہر ہوتا ہے، لیکن ریونیو کے ذریعے زرعی انکم ٹیکس کا بجٹ پچھلے سال کی شرح سے ہی رکھا گیا ہے۔ 79 فیصد انحصار وفاقی منتقلیوں پر ہے جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔

علاوہ ازیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افراط زر میں اضافہ مرکز اور صوبوں کی جانب سے بڑے بجٹ خسارے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جو مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے لے کر باقاعدگی سے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔

یہ اقدام بغیر کسی شک کے عوامی نوعیت کی سیاسی چالوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، جو قومی اور صوبائی معیشت پر کافی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور دوسرے صوبوں پر دباؤ ڈال کر جو اس اقتصادی طور پر ناقابل عمل اقدام سے گریز کر رہے ہیں، انہیں بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

آئی ایم ایف بھی یہ جاننے میں دلچسپی لے گا کہ اس اقدام سے پنجاب حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ میں سرپلس کی پیداوار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اگر صوبائی سرپلس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو پیسہ کہاں سے آئے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments