وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر مختار احمد کو ایک بار پھرایچ ای سی کا چیئرمین مقرر کردیا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) ڈاکٹر مختار احمد کو ایچ ای سی کی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد وزیر اعظم نے رواں ماہ کے شروع میں مختار احمد کو دوبارہ ایچ ای سی کا سربراہ مقرر کیا۔
وزیر منصوبہ بندی کی طرف سے وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا کہ موجودہ چیئرمین سال 2004 سے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ بار بار توسیع کے باوجود وعدہ کردہ نتائج پورے نہیں ہوئے ہیں اور وہ اس شعبے کی بدحالی کے اہم ذمہ دار ہیں۔
یہ خط 31 جولائی کو لکھا گیا ہے تاہم یہ چند دن پہلے ہی میڈیا میں سامنے آیا ۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی میں سینئر عہدوں پر بھرتیاں اقربا پروری پر کی گئیں۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانا انتہائی ضروری ہے جس کے لیے ایک نئی اور تجربہ کار ٹیم کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو جرات مندانہ وژن اور ضروری تبدیلیوں کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت رکھتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ چیئرمین نے (گزشتہ ماہ) اپنی دوسری مدت پوری کی ہے اور وہ توسیع کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کے مفاد میں آپ سے درخواست ہے کہ ایک اعلیٰ سطح سرچ کمیٹی تشکیل دی جائے جو میرٹ کی بنیاد پر ایک قابل چیئرمین اور سینئر ٹیم ممبران کی نشاندہی کرے اور ان کی تقرری کرے جو ایچ ای سی کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاح اور اصلاحات کی راہ پر گامزن کر سکے تاکہ پاکستان کو اعلیٰ معیار کے انسانی وسائل فراہم کیے جاسکیں۔
تاہم 6 اگست کو احسن اقبال کے خط کو مبینہ طور پر نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے چیئرمین ایچ ای سی کی دوبارہ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جو 30 جولائی سے نافذ العمل ہوگا۔
وزیر منصوبہ بندی نے اپنے خط میں کہا کہ ایچ ای سی میں انتظامی تعطل بنیادی طور پر سینئر انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی کی موجودہ سینئر ٹیم کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے مجھے شدید تشویش ہے کہ ایچ ای سی کو مختص عوامی فنڈز خطرے میں ہیں اور ہمارے تعلیمی اہداف کی فوری ضرورت پوری نہیں ہوئی ہے - ایچ ای سی اپنے گریجویٹس کی ملازمتوں کو بڑھانے کیلئے موثر کوالٹی کنٹرول اقدامات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایچ ای سی کے اقدامات کی متعدد مثالیں موجود ہیں،جس میں غیر منصفانہ ٹیم سازی کا عمل اور من مانی وسائل کی تقسیم شامل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی یو ایس پاکستان نالج کوریڈور اور یونیورسٹی پرفارمنس آڈٹ جیسے اسٹریٹجک منصوبوں کو موثر انداز میں عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہا ہے۔ وزیر نے مزید کہا کہ اہداف پورے نہیں کیے گئے ہیں۔
اعلیٰ معیار کی اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنانے کا بنیادی مینڈیٹ اور ذمہ داری ایچ ای سی کی ہے۔ بدقسمتی سے ایچ ای سی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے اور بتدریج بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ احسن اقبال نے خط میں لکھا کہ یہ ناکامی حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹس (2018-2021 کے علاوہ) اور آپریشنل خودمختاری کے باوجود برقرار ہے۔
اپنے قیام کے 20 سال سے زائد عرصے میں حکومت اور بین الاقوامی شراکت داروں نے اعلیٰ تعلیم کے بنیادی ڈھانچے، انسانی وسائل اور فیکلٹی ڈیولپمنٹ (اسکالرشپس، پی ایچ ڈی/ پوسٹ ڈاکس)، ایکریڈیٹیشن، کوالٹی ایشورنس (کیو اے اے)، تصدیقی خدمات اور نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز (این آر پی یو) میں خاطر خواہ عوامی سرمایہ کاری کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کے باوجود ایچ ای سی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں ہماری انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد ہم نے ایچ ای سی کے لیے فنڈز میں دوبارہ اضافہ کیا۔ صرف 2023 میں ایچ ای سی کے ترقیاتی بجٹ میں 446 ارب روپے کی مجموعی لاگت اور 314 ارب روپے کے تھرو فارورڈ کے 169 منصوبے شامل تھے۔ تاہم وسائل کی تقسیم کی بحالی کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کی حالت میں کوئی واضح بہتری نہیں آئی ہے۔
احسن اقبال نے ایف پی ایس سی (فیڈرل پبلک سروس کمیشن) کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کم از کم 20ہزار امیدواروں نے اپنے امتحانات کے تحریری حصے کی کوشش کی جن میں سے صرف 393 امیدوار یا 1.94 فیصد پاس ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی ایس سی کئی سال سے ہماری تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کے بارے میں مسلسل شکایت کررہا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ صوبوں کی جامعات وسائل کی کمی، ناقص گورننس اور ناکافی مانیٹرنگ اور تشخیص کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے اور ریسرچ کمیونٹی میں واضح طور پر وفاقی اور صوبائی سطح پر دوری پائی جاتی ہے۔
وفاقی وزیر نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کریں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024