غزہ جنگ بندی مذاکرات کے لئے فیصلہ کن لمحہ ہے، انٹونی بلنکن

اپ ڈیٹ 19 اگست 2024

امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے پیر کو واشنگٹن کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے کی جانے والی سفارتی کوشش کو شاید سب سے بہتراور آخری موقع قرار دیا اور تمام فریقین کو معاہدے کو مکمل کرنے کی درخواست کی۔

گزشتہ ہفتے دوحہ میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کے بعد کئی ماہ سے جاری جنگ بندی کے حوالے سے طویل مذاکرات رواں ہفتے قاہرہ میں جاری رہیں گے۔

بلنکن رواں ہفتے مذاکرات کو کامیابی بنانے کے لیے امریکی سفارتی دباؤ میں اضافہ کریں گے کیونکہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے ایسی تجاویز پیش کی تھیں جن کے بارے میں ثالثی کرنے والے ممالک کا خیال ہے کہ اس سے خلیج ختم ہو جائے گی۔

بلنکن نے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے ساتھ ملاقات سے قبل نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے، شاید بہترین، شاید آخری موقع یرغمالیوں کو وطن واپس لانے، جنگ بندی حاصل کرنے اور پائیدار امن و سلامتی کے لیے سب کو بہتر راستے پر ڈالنے کا۔

انہوں نے کہا کہ میں صدر بائیڈن کی ہدایات پر سفارتی کوششوں کیلئے یہاں آیا ہوں تاکہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کوشش کی جا سکے اور بالآخر لائن پر پہنچنے کی کوشش کی جا سکے… بلنکن نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر کوئی راضی ہوجائے اور انکار کیلئے کوئی بہانہ تلاش نہ کرے۔

قطر، امریکہ اور مصر کئی ماہ سے جاری مذاکرات میں اب تک اختلافات کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اتوار کو بھی غزہ میں جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔

بلنکن کی آمد کے چند گھنٹوں بعد حماس نے کہا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو ثالثوں کی کوششوں کو ناکام بنانے، معاہدے میں تاخیر اور غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کو فلسطینیوں کی جارحیت کا سامنا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

وسیع تر خطے میں کشیدگی میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی فوری ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔

ایران نے 31 جولائی کو تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

اعلیٰ امریکی سفارتکار نے مزید کشیدگی کے خلاف امریکی تنبیہ کا اعادہ بھی کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کا بھی وقت ہے کہ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے اس عمل کو پٹری سے اتارا جا سکے اور اس لیے ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ کشیدگی میں کوئی اضافہ نہ ہو اور کوئی اشتعال انگیزی نہ ہو۔

اسرائیلی حکام کے مطابق یہ جنگ 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل میں گھس کر 1200 افراد کو ہلاک اور 250 کے قریب یرغمالیوں کو یرغمال بنا لیا۔

فلسطینی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

Read Comments