بھارت میں ساتھی ڈاکٹر کی عصمت دری، قتل کیخلاف ہڑتال کے بعد متعدد ڈاکٹرز تاحال خدمات سے گریزاں

18 اگست 2024

بھارت میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن کی جانب سے 24 گھنٹے کی ہڑتال ختم ہونے کے باوجود کچھ جونیئر ڈاکٹرز اتوار کے روز بھی ملازمت پر نہ آئے اور اپنے ایک ساتھی کو فوری انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مشرقی شہر کلکتہ میں 9 اگست کو علی الصبح چیسٹ میڈیسن کی 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ طالبہ کے قتل کے بعد ملک بھر میں ڈاکٹروں نے احتجاج اور مشعل بردار مارچ کیے ہیں اور معمول کے مریضوں کو دیکھنے سے انکار کردیا ہے۔

خواتین کارکنوں کا کہنا ہے کہ برطانوی دور کے آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے واقعہ نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ 2012 میں دہلی میں چلتی بس میں 23 سالہ طالبہ کے اجتماعی عصمت دری اور قتل کے بعد سخت قوانین کے باوجود بھارت میں خواتین کس طرح مشکلات کا شکار ہیں۔

مقتولہ کے والد نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کی رات صحافیوں کو بتایاکہ میری بیٹی چلی گئی ہے لیکن لاکھوں بیٹے اور بیٹیاں اب میرے ساتھ ہیں۔ اس سے مجھے بہت طاقت ملی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہم اس سے کچھ حاصل کریں گے۔

بھارت میں 2012 کے واقعے کے بعد فوجداری انصاف کے نظام میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی گئیں جن میں سخت سزائیں بھی شامل ہیں، لیکن مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے بہت کم تبدیلیاں آئی ہیں اور نہ ہی کافی اقدامات کیے گئے ہیں۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن، جس کی ہڑتال اتوار کو مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجے ختم ہوئی، نے وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا کہ چونکہ ہندوستان کے 60 فیصد ڈاکٹر خواتین ہیں لہذا انہیں اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کرنے کی ضرورت ہے کہ اسپتال کے عملے کو ہوائی اڈوں کی طرح حفاظتی پروٹوکول کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا جائے۔

وزارت صحت نے مودی کو لکھے خط میں کہا ہے کہ تمام ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کام کی جگہ پر پرامن ماحول، حفاظت اور تحفظ کے مستحق ہیں۔

لیکن مودی کی آبائی ریاست گجرات میں سرکاری اسپتالوں میں 6000 سے زیادہ زیر تربیت ڈاکٹر اتوار کو تیسرے دن بھی غیر ہنگامی طبی خدمات سے دور رہے حالانکہ نجی اداروں نے باقاعدہ کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

احمد آباد کے بی جے میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن کے صدر، ڈاکٹر دھول گامتی نے کہا کہ ہم نے متفقہ طور پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریضوں کے مفاد میں ہم ہنگامی طبی خدمات فراہم کر رہے ہیں لیکن او پی ڈی یا معمول کے وارڈ کے کام میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

’ایمرجنسی سروسز بند کی جا سکتی ہیں‘

حکومت نے ڈاکٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ ڈینگی اور ملیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے علاج کے لئے ڈیوٹی پر واپس آئیں جبکہ حکومت نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات تجویز کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

آئی ایم اے عہدیداروں نے بتایا کہ زیادہ تر ڈاکٹروں نے اپنی معمول کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردی ہیں ، حالانکہ اتوار کو عام طور پر غیر ہنگامی معاملات کے لئے تعطیل ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں آئی ایم اے کے سربراہ ڈاکٹر مدن موہن پالی وال نے کہاکہ ڈاکٹر اپنے معمول کی سرگرمیوں پر واپس آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ڈاکٹروں کے تحفظ کے لئے کوئی سخت قدم نہیں اٹھاتی ہے تو اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور اس بار ہم ہنگامی خدمات کو بھی روک سکتے ہیں۔

لیکن آل انڈیا ریزیڈنٹس اینڈ جونیئر ڈاکٹرز جوائنٹ ایکشن فورم نے ہفتہ کے روز کہا کہ وہ ملک گیر ہڑتال جاری رکھیں گے اور حکام کو مکمل تحقیقات کرنے اور گرفتاریاں کرنے کے لئے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی جائے گی۔

مشرقی شہر بھوبنیشور میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر پربھاس رنجن ترپاٹھی نے کہا کہ جونیئر ڈاکٹروں اور انٹرن نے اپنی ڈیوٹی دوبارہ شروع نہیں کی ہے۔

انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مظاہرے آج بھی ہو رہے ہیں، دوسروں پر بہت زیادہ دباؤ ہے کیوں کہ افرادی قوت کم ہو گئی ہے۔

آر جی کار اسپتال ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے احتجاج اور ریلیوں سے لرز اٹھا ہے۔ پولیس نے اتوار سے ایک ہفتے کے لئے اسپتال کے ارد گرد پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی اور فسادات سے نمٹنے والی خاص پولیس ٹیمیں تعینات کردی ہیں۔

کلکتہ کے پولیس کمشنر ونیت گوئل نے ایک حکم نامے میں کہا کہ امن کی خلاف ورزی اور امن عامہ میں خلل کو روکنے کے لئے جلسوں، مظاہروں اور جلوسوں کو روکنا جائز ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے نامہ نگاروں نے اتوار کے روز اسپتال کے دروازوں کے ارد گرد اپنے معمول کے احتجاج کی جگہ پر کوئی ڈاکٹر نہیں دیکھا کیونکہ علاقے میں بارش ہو رہی تھی۔

Read Comments