جنرل فیض کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا

  • فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، ملٹری میڈیا ونگ
اپ ڈیٹ 13 اگست 2024

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف شکایات پر ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، تاکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جا سکے۔

نتیجتاً، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے جو پاک فوج کے ریٹائرمنٹ کے بعد کے قواعد و ضوابط کے تحت غیر قانونی ہیں۔

تاہم 2022 میں ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید نے اپنی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پیدا ہونے والے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔

پس منظر

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید جنہوں نے دسمبر 2022 میں ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی، کچھ عرصے سے اکثر متنازع وجوہات کی بنا پر خبروں میں رہے ہیں۔ وہ ان چھ سینئر جرنیلوں میں شامل تھے جن کا نام جی ایچ کیو نے 2022 میں آرمی چیف کے عہدے کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور عالمی سطح پر اس وقت سرخیوں میں آئے جب انہیں 2021 میں امریکی اور دیگر مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے فورا بعد کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

حال ہی میں سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے فیض حمید پر الزام لگایا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کے معاملے میں جاری کرپشن کیس کے ”معمار“ اور ”ماسٹر مائنڈ“ ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”میری آج مجبوری تھی کہ قوم کو بتاؤں کہ جب آپ کہتے ہیں کہ اس کا فائدہ عمران کو ہوا […] تو سب سے بڑا فائدہ فیض حمید کو ہوا۔“

قبل ازیں اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے مارچ میں سابق ڈپٹی تحصیلدار، سردار نجف حمید، جو کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے بھائی ہیں، کو بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیس میں گرفتار کیا۔

اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار نے نجف حمید کو اس وقت گرفتار کیا جب اینٹی کرپشن کورٹ کے جج علی نواز بھکر نے ان کی تاخیر سے آمد پر ان کی ضمانت مسترد کر دی۔

اسی طرح فیض حمید کو اس سال کے اوائل میں فیض آباد دھرنا کیس کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے انکوائری کمیشن نے بری کر دیا تھا۔ نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان سمیت سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر تقریبا تین ہفتوں تک احتجاج کیا اور دھرنا دیا تھا۔

احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

اس معاہدے پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے بھی دستخط کیے جو اس وقت آئی ایس آئی میں میجر جنرل تھے۔

Read Comments