ساؤتھ پورٹ، برطانیہ میں تین لڑکیوں پر چاقو سے حملہ کے بعد پیدا ہونے والے عوامی جنون، تشدد اور اسلامو فوبیائی جذبات نے یہ تلخ سبق دیا ہے کہ کس طرح اختلافات اور دیوار سے لگادینے کی بیان بازی نسل پرستی اور انتہا پسندی کو ہوا دے سکتی ہے۔
اس حملے کے بعد دائیں بازو کے عناصر نے جھوٹ پھیلایا کہ حملہ آور ایک مسلمان پناہ گزین تھا، اور سوشل میڈیا نے خاص طور پر جھوٹ اور مسلم مخالف رائے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں مساجد اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملے کیے گئے۔
غیر ملکیوں کے خلاف احتجاج نے انگلینڈ کے کئی شہروں، بشمول ہل، لیورپول، مانچسٹر اور برسٹل میں شدید فسادات کی شکل اختیار کر لی، جس میں فسادیوں کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں، دکانوں کی لوٹ مار کی گئی اور انہیں جلایا گیا۔
اگرچہ برطانوی حکومت اب انتہا پسند گروپوں اور فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی دے کر تشدد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور مساجد کو تحفظ فراہم کر رہی ہے، لیکن برطانیہ اور دیگر مغربی معاشروں میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے جرائم کا مسئلہ جلد حل نہیں ہو سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت عرصے تک دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات رکھنے والے افراد کو اکثر سیاسی اور سماجی دھارے کے کنارے پر موجود الگ تھلگ عناصر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظریات مغرب میں پہلے سے زیادہ مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں، اور خاص طور پر اسلام مخالف بیانیہ، مہذب معاشرے میں زیادہ قبولیت حاصل کر چکا ہے۔
حالیہ انتخابات میں فرانس، نیدرلینڈز، جرمنی اور اٹلی میں دائیں بازو کی جماعتوں نے اسلامو فوبیا، غیر ملکیوں کے خلاف جذبات اور نسل پرستی کی وجہ سے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کی ہے، اور حالیہ برطانیہ کے انتخابات میں لیبر نے اچھی اکثریت حاصل کی، لیکن یہ نتائج حقیقت نہیں چھپاسکتے کہ نفرت کی سیاست برطانوی معاشرے میں اب بھی مضبوط ہے، جس کا مظاہرہ انتہا پسند ریفارم پارٹی کے 14.3 فیصد ووٹوں کے حصے کے طور پر تیسرے نمبر پر آنے سے ہوا ہے۔ یورپ، جو طویل عرصے سے لبرل ازم، رواداری اور جمہوریت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اگر دائیں بازو کی جماعتوں کا اس براعظم پر حاوی ہونے کا عمل جاری رہا تو وہ اپنی حیثیت کھو سکتا ہے۔
برطانیہ کی حکومت کی جانب سے آنے والے مذمتیں اور قانون توڑنے والوں کو سزا دینے کے وعدے، اگرچہ خوش آئند ہیں، لیکن مسئلے کی جڑ کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانیہ کی حکومت، اور دیگر مغربی انتظامیہ یہ تسلیم کریں کہ اسلامو فوبیا ایک اہم اور بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، جو مغرب میں موجود دیگر نسل پرستی کی شکلوں کے برابر ہے، اور اس کے حل کے لیے فوری اور جامع کارروائی کی ضرورت ہے۔
ایک حقیقت جو بہت عرصے سے نظرانداز کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی نسل پرستانہ بیان بازی کے حقیقی دنیا میں نتائج ہیں، جن میں مغرب میں مسلم کمیونٹیز کو دیوار دے لگانا، سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا اور نظام کی سطح پر ناانصافی کو برقرار رکھنا شامل ہے۔
لیبر حکومت کو پچھلے کنزرویٹو دور حکومت سے بہتر کام کرنا چاہیے، جس نے اکثر دائیں بازو کے بیانیے کو فروغ دیا، اور اسلامو فوبیا کی ایک قانونی تعریف اپنانی چاہیے۔ اس کے بعد ایسی پالیسیوں کا نفاذ ہونا چاہیے جو برطانیہ کے مسلم باشندوں کو تعصب اور امتیازی سلوک سے محفوظ رکھے۔
مزید برآں، برطانوی سیاسی رہنمائوں اور میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کو بدنام کرنے میں جو دوہرا معیار دکھایا گیا ہے اس کا بھی خصوصی طور پر جائزہ لیا جانا چاہیے، جس کی بہترین مثال غزہ جنگ کے خلاف پرامن مظاہروں کو اشتعال انگیز بیان بازی اور غلط بیانی کے ذریعے تقسیم کرنے والے انداز میں پیش کرنا ہے۔
اس کے برعکس، اب جبکہ ہمارے پاس ایسی صورتحال ہے جہاں حقیقت میں مسلم مخالف فسادیوں کے ذریعہ فسادات اور تشدد ہوا ہے، برطانوی معاشرے کے کچھ افراد کی جانب سے ردعمل کافی مضبوط اور مستقل نہیں رہا۔ یہ واضح ہے کہ اس نفرت انگیز جرم کی تشدد آمیز لہر سے نمٹنے کے لیے قانونی فریم ورک کو مضبوط کرنے کے علاوہ، سماجی دوہرے معیار کو دور کرنا بھی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔