مشکلات کے شکار صارفین

یہ کہنا ضروری ہے کہ حکومت یا تو پاکستانی صارفین کی مشکلات کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کرنے کی قصوروار ہے یا ایماندار...
اپ ڈیٹ 10 اگست 2024

یہ کہنا ضروری ہے کہ حکومت یا تو پاکستانی صارفین کی مشکلات کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کرنے کی قصوروار ہے یا ایماندار ٹیکس دہندگان کی قیمت پر اپنے ہی عہدیداروں کو مراعات اور سہولتیں دے کر جان بوجھ کر معیشت کو مسخ کرنے کی قصوروار ہے۔

مثال کے طور پر پلس کنسلٹنٹ کے ایک سروے میں یہ انکشاف کرتے ہوئے کوئی تعجب نہیں ہوا کہ جولائی تا اگست شہری صارفین کے چیلنجز میں سالانہ بنیادوں پر 14 فیصد اضافہ ہوا،جس کے نتیجے میں 74 فیصد صارفین موجودہ آمدنی کے ساتھ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے سے قاصر رہے۔ ان میں سے 60 فیصد نے کہا کہ وہ اخراجات میں کمی کرنے پر مجبور ہیں (جس کا براہ راست اثر گروسری شاپنگ پر پڑا)، 40 فیصد کو زندہ رہنے کے لیے قرض لینا پڑا، جب کہ 10 فیصد نے اضافی پارٹ ٹائم کام کرکے اپنی ضروریات پوری کیں۔

یہ اس بڑے مالی دباؤ کا قدرتی نتیجہ ہے جو ملک کے درمیانہ اور کم آمدنی والی طبقات پر ڈالا گیا ہے جو بنیادی طور پر آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام کی سخت ابتدائی شرائط پوری کرنے کے لیے ہے اور یہ رجحان بڑھتا جائے گا کیونکہ موجودہ مالی سال آگے بڑھے گا اور ای ایف ایف (توسیعی فنڈ سہولت) کی شرائط قسط کے ساتھ مزید سخت ہوتی جائیں گی۔

اسی دوران آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت خزانہ، جو مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے—خاص طور پر ان نازک حالات میں—نے مالی سال 2022-23 میں کابینہ کی منظور شدہ پالیسی کے بغیر اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے عہدیداروں میں اعزازیہ کے طور پر کم از کم 240 ملین روپے تقسیم کئے ہیں ۔

اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس رقم کو تنخواہوں میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ انکم ٹیکس سے بچا جا سکے۔ تو دراصل، انہیں صرف وزارت میں کام کرنے کے بدلے میں کروڑوں روپے ملے اور ان میں سے کوئی بھی رقم خزانے میں ٹیکس کی صورت میں نہیں جائے گی، جو ملک کی بقاء کے لیے شدید ضروری ہے کیونکہ اس خلا کوعام لوگوں سے پورا کرانا ہے۔

واضح طور پر جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار ہے، انہیں لوگوں یا ملک کی قسمت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ نظام کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ اپنے اور اپنے جیسے لوگوں کی طرف منتقل کرنے میں خوش ہیں اور ٹیکس نیٹ سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں، چاہے بڑی تصویر کچھ بھی ہو۔

یاد رہے کہ یہ انکشاف وزیراعظم کی جانب سے تمام سطح پر حکومتی اخراجات میں کٹوتی کے حالیہ حکم کے فوراً بعد سامنے آیا ہے، جسے وزارت خزانہ نے پہلے ہی سالانہ بجٹ میں شرمناک طور پر نظر انداز کردیا تھا کیونکہ انہوں نے سرکاری ملازمین کو زیادہ تنخواہیں اور مراعات دیں جب کہ تنخواہ دار طبقے پر بے پناہ ٹیکس عائد کر دیے۔

یہی وجہ ہے کہ عوام کو اس بات پر گہری نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت انصاف کے اس فقدان سے کس طرح نمٹتی ہے۔ اگر ہمیشہ کی طرح کروڑوں ڈالر کی خرد برد کو روایتی طور پر نظرانداز کردیا جاتا ہے تو پھر حکومت کی مالیاتی بحران سے نمٹنے کی سنجیدگی، یا اس کی عدم سنجیدگی، پوری طرح سے بے نقاب ہو جائے گی۔

حکومت کو ان بہت سے خاندانوں کی بھی فکر کرنی چاہیے جو پہلے ہی اپنے بلوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کی غربت کی شرح کووڈ سے ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اب آئی ایم ایف کے مطالبات سے ہر ایک پر اضافی دباؤ ڈالا جا رہا ہے، کوئی بھی اس منظر نامے کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے جب لاکھوں گھرانے نقدی کی کمی کی وجہ سے تنگی کا شکار ہو جائیں اور یہ مایوسی سڑکوں پر نکل آئے۔

پلس کنسلٹنٹ جیسے سروے چھوٹے نمونوں پر مبنی ہوتے ہیں،لیکن وہ اب بھی قابل قدر معلومات فراہم کرتے ہیں جنہیں حکومت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، خاص طور پر جب اسے معلوم ہو کہ اس کی اپنی طرف سے لاگو کردہ غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی اکثریت کی حالت مزید بدتر ہونے والی ہے۔

یہ افسوسناک اور شرم کی بات ہے کہ حکومت اس بقا کی جنگ میں اس قدر تاخیر کے باوجود نہ ملکر کام کرپائی اور نہ ہی اپنی کارکردگی کو درست کر پائی۔ اگر اس نے فوری طور پر اقدامات نہ اٹھائے، تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ آئی ایم ایف کے مشکل پروگرام، جو ابھی شروع ہونا باقی ہے، اپنا راستہ کھو دے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments