بنگلہ دیشی فوج کے احتجاج روکنے سے انکار نے حکومت کے خاتمے پر مہر لگادی

07 اگست 2024

بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے شدید مظاہروں کے درمیان اچانک فرار ہونے سے ایک رات پہلے ملک کے آرمی چیف نے ے جرنیلوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور فیصلہ کیا کہ فوجی کرفیو نافذ کرنے کے دوران شہریوں پر گولیاں نہیں چلائے گی، یہ بات دو حاضر سروس فوجی افسران نے رائٹرز کو بات چیت کے دوران بتائی۔

اس معاملے پر بریفنگ دینے والے ایک ہندوستانی اہلکار کے مطابق، جنرل وقار الزماں پھر شیخ حسینہ کے دفتر پہنچے، وزیر اعظم کو بتایا کہ ان کے سپاہی اس لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہوں گے جس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔

پیغام واضح تھا، اہلکار نے کہا: شیخ حسینہ کو اب فوج کی حمایت حاصل نہیں رہی۔

فوجی اعلیٰ افسران کے درمیان آن لائن ملاقات اور شیخ حسینہ کو پیغام کہ وہ حمایت کھو چکی ہیں، کی تفصیلات پہلے نہیں دی گئیں۔

وہ یہ بتا رہے تھے کہ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی پیر کے روز کس طرح کی افراتفری کے دوران اختتام کو پہنچی، جب وہ بنگلہ دیش سے بھاگ کر بھارت چلی گئیں۔

اتوار کو ملک گیر جھڑپوں میں کم از کم 91 افراد کے ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہونے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا، جو جولائی میں شیخ حسینہ کے خلاف طالب علموں کی قیادت میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے سب سے خونی دن تھا۔

فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل سمیع الدولہ چودھری نے اتوار کی شام ہونے والی بات چیت کی تصدیق کی، جسے انہوں نے اپ ڈیٹس لینے کے لیے ایک باقاعدہ میٹنگ قرار دیا۔

اس میٹنگ میں فیصلہ سازی کے بارے میں اضافی سوالات پیش کیے جانے پر انہوں نے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

شیخ حسینہ سے رابطہ نہیں ہوسکا اور ان کے بیٹے اور مشیر، سجیب وازید نے تبصرے کے لیے بار بار کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

روئٹرز نے گزشتہ ہفتے کے واقعات سے واقف دس افراد سے بات کی، جن میں چار حاضر سروس فوجی افسران اور بنگلہ دیش میں دو دیگر باخبر ذرائع بھی شامل ہیں، تاکہ شیخ حسینہ کے اقتدار کے آخری 48 گھنٹوں کا پتا لگایا جاسکے۔

ان میں سے بہت سے لوگوں نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔

جنرل وقار الزماں نے عوامی طور پر شیخ حسینہ کی حمایت واپس لینے کے اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کی۔ بنگلہ دیش کی فوج کے تین سابق سینئر افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر مظاہروں اور کم از کم 241افراد کی ہلاکتوں نے شیخ حسینہ کی ہر قیمت پر حمایت کو ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔

ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ایم سخاوت حسین نے کہا، ”فوجیوں کے اندر بہت بے چینی تھی۔ شاید آرمی چیف پر یہی دباؤ تھا، کیونکہ فوجی باہر تھے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔“

جنرل وقار الزماں، جن کی اہلیہ شیخ حسینہ سے رشتہ داری رکھتی ہیں، نے ہفتے کے روز وزیراعظم کے لیے اپنی حمایت کے خاتمے کا اشارہ دیا تھا، جب وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر ٹاؤن ہال کی میٹنگ میں افسران سے خطاب کر رہے تھے۔

بعد میں فوج میں اس بحث کی کچھ تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں۔

فوج کے ترجمان چودھری نے کہا کہ جنرل نے اعلان کیا کہ جانوں کی حفاظت کرنی ہے اور اپنے افسران سے صبر کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ یہ پہلا اشارہ تھا کہ بنگلہ دیش کی فوج پرتشدد مظاہروں کو زبردستی نہیں دبائے گی، جس سے حسینہ کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

ریٹائرڈ سینئر فوجی جیسے بریگیڈیئر۔ جنرل محمد شاہد الانعم خان ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پیر کو کرفیو کی خلاف ورزی کی اور سڑکوں پر نکل آئے۔

Read Comments