اگست 2016 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو الوداع کہنے کے بعد پاکستان کے اقتصادی سفر نے اس وقت ایک اہم موڑ لیا جب اس نے اپنی تاریخ میں پہلی بار توسیعی شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کا بارہواں اور آخری جائزہ کامیابی کے ساتھ بغیر کسی رعایتوں کے ساتھ مکمل کیا۔
تاہم اس کے بعد کے سال سیاسی عدم استحکام، مسلسل احتجاجات جو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حمایت یافتہ تھے اور عدالتی سرگرمی سے بھرے رہے جس میں تین بار منتخب ہونے والے وزیرِاعظم کو ہٹا دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کاروباری اداروں اور بدعنوانی کے الزامات پر تنقید کرنے والی آوازوں کے خلاف جارحانہ اقدامات، اور امن و امان کی کی صورتحال میں بگاڑ نے ملک کی اقتصادی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا۔یہ چیلنجز 2018 کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام تک ایک سنگین اقتصادی صورتحال میں تبدیل ہو گئے۔
غیر یقینی معاشی صورتحال کا سامنا کرنے والی نئی اتحادی حکومت کے پاس ایک بار پھر قرض دہندہ سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ بدقسمتی سے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل حکومت نے ستمبر 2018 میں منی بجٹ پیش کیا جس میں تقریبا 730 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے۔ اس اقدام نے کاروباری ماحول پر منفی اثر ڈالا اور مہنگائی میں اضافہ کیا جس سے ملک کی اقتصادی مشکلات مزید پیچیدہ ہوگئیں۔
جب 2018 میں آئی ایم ایف سے مدد طلب کی گئی تو پاکستان کو ایک ایسے ادارے کا سامنا کرنا پڑا جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت اور کم جوابدہ تھا۔
پاکستان کی فوری ضرورت اور کوٹے کے مطابق ہونے کے باوجود آئی ایم ایف ابتدائی طور پر مدد کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔ ضروری مالی امداد حاصل کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات کے لیے متحدہ عرب امارات کا سفر کیا جس میں انہوں نے آئی ایم ایف کے اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے عزم کی یقین دہانی کرائی۔ اس کوشش کا اختتام جولائی 2019 میں ای ایف ایف پروگرام کی منظوری کے ساتھ ہوا ،اور پہلی قسط جلد ہی جاری کر دی گئی۔
تاہم، حکومت اپنے عہدے کے دوران متفقہ اصلاحات کو نافذ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتی رہی۔
تاہم حکومت اپنے پورے دور میں متفقہ اصلاحات کو نافذ کرنےکیلئے مشکلات کا سامنا کرتی رہی۔ اس میں ناکامی کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اضافی ٹیکسز ، بجلی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سمیت سخت شرائط عائد کردیں۔
ایک اہم اقدام کے طور پر آئی ایم ایف کی ہدایت پر 1956 کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ ترمیم کیا گیا تاکہ اسے مزید خودمختاری دی جا سکے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لٹر پٹرولیم لیوی عائد کرنے پر بھی اتفاق کیا ۔
ان سخت اقدامات کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت مالی استحکام کے حصول کے لیے ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے میں ناکام رہی۔اس کے برعکس عدم اعتماد کی ووٹنگ کا سامنا کرنے سے پہلے اس نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کر دی۔ آخرکار، یہ جون 2022 میں طے پایا جس کا قومی خزانے پر بھاری بوجھ پڑا۔
یہ غلطیاں اور پالیسی میں تبدیلیاں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور عالمی قرض دہندہ کی سخت شرائط کو پورا کرنے میں درپیش بڑے چیلنجز کو اجاگر کرتی ہیں۔آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں کے متضاد پالیسی اقدامات نے اقتصادی بحران کو مزید شدت دی، جس نے پاکستان میں مستقل اور مضبوط معاشی گورننس کی اشد ضرورت پر زود دیا۔
9 اپریل 2022 کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کے بعد، مفتاح اسماعیل دوسرے بار غیر منتخب وزیر خزانہ بن گئے اور اپنے پیش رو کی پالیسیوں کی عکاسی کی۔
9 اپریل 2022 کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے بعد مفتاح اسماعیل دوسری بار غیر منتخب وزیر خزانہ بن گئے اور انہوں نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں کی عکاسی کی۔ انہوں نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات نافذ کرنے کے بجائے ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات میں اضافہ اور توانائی و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے اسی طریقہ کار کو اپنایا۔
ان کے اقدامات میں سے ایک خوردہ فروشوں پر 3,000 روپے کا ٹیکس عائد کرنا تھا جس کا کریڈٹ انہوں نے لیا لیکن یہ مریم نواز شریف کی جانب سے ان کے کام میں مداخلت کے طور پر منسوب کیا گیا۔ تاہم یہ اقدام ایک ترجیحی ٹیکس اسکیم بن گیا جس نے قومی خزانے میں حقیقی اضافہ کرنے کے بجائے ایک متوازی ٹیکسیشن نظام قائم کرنے کا خطرہ پیدا کیا۔
کیو بلاک چھوڑنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے خود ساختہ ”معاشی جادوگر“ اسحاق ڈار نے چوتھی بار وزیر خزانہ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔اگرچہ اس سے قبل انہیں آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے، کرنسی کو مستحکم کرنے اور ملک کو معاشی راستے پر گامزن کرنے پر سراہا گیا تھا، تاہم انہیں چھوٹی بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے ایک ہی دن میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی کمی کا مشاہدہ کیا اور آئی ایم ایف سے قسط حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ای ایف ایف پروگرام کا قبل از وقت اختتام ہوا۔
بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف کی ذاتی کاوشوں کی بدولت پاکستان نے کامیابی کے ساتھ 9 ماہ کا 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ حاصل کیا جو اپریل 2024 میں مکمل ہوا۔ تاہم آئی ایم ایف کا رویہ زیادہ سخت نظر آیا۔ ہر جائزے کے ساتھ آئی ایم ایف نے مزید سخت شرائط عائد کیں جن میں دوست ممالک سے مالی گارنٹی، سیاسی جماعتوں کو شامل کرنا اور پروگرام کے لیے ان کی منظوری حاصل کرنا، قرضوں کی ری شیڈولنگ وادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے مبالغہ آمیز اندازے پیش کرنا شامل ہیں۔
عملے کی سطح کے معاہدوں کی کامیاب تکمیل کے باوجود آئی ایم ایف نے قسطیں جاری کرنے میں تاخیر کی اور فنڈز جاری کرنے سے قبل اضافی شرائط عائد کیں ۔ ان سخت شرائط نے ملک کی مجموعی ترقی پر منفی اثر ڈالا ، کاروبار کرنے کی لاگت میں نمایاں اضافہ کیا اور چھوٹے کاروباروں کے لیے جگہ کم کردی ہے۔ مزید برآں ان اقدامات نے افراط زر میں نمایاں اضافہ کیا جس سے عام لوگوں کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔
آئی ایم ایف کے موجودہ معاملات پاکستان کے ساتھ اس کے سخت رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ حال ہی میں 12 جولائی 2024 کو جاری کردہ آئی ایم ایف کے پریس ریلیز کے مطابق، 37 ماہ کی مدت کے لیے تقریباً 7 ارب امریکی ڈالر کے ای ایف ایف معاہدے پر عمل درآمد کے باوجود، آخری سہولت فراہم کرنے والے نے 12 ارب امریکی ڈالر کے قرض کی نئی قسط کی شرط متعارف کرائی ہے۔
میڈیا رپورٹس اور وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی حتمی شرط کو پورا کرنے کے لیے اس قرضے کو پانچ سال تک ری شیڈول کرنے کے لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مذاکرات کر رہا ہے۔ بیجنگ میں قرضوں کی واپسی پر بات چیت کے بعد وزیر خزانہ نے بتایا کہ چین نے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور مذاکرات کو تعمیری قرار دیا۔
پاکستان جو پہلے سعودی عرب سے 5 ارب امریکی ڈالر، چین سے 4 ارب امریکی ڈالر، اورمتحدہ عرب امارات سے 3 ارب امریکی ڈالر پر ایک سال کی توسیع حاصل کر چکا ہے، اب وہ تین سے پانچ سال کی توسیع کا خواہاں ہے۔ یہ ری شیڈولنگ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے رویے کے علاوہ سیاسی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی کوششوں کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔
وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں شامل اعلیٰ قیادت کی عمریں 70 سال یا اس سے زیادہ ہیں جن میں سے بہت سے صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔اس کے باوجود کوئی بھی حقیقت میں 240 ملین سے زائد شہریوں کے مستقبل کے لیے مخلص نظر نہیں آتا۔ بڑی سیاسی جماعتیں بار بار اقتدار میں آئی ہیں، مگر کوئی بھی نمایاں ترقی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہیں کتنے مزید دور درکار ہیں تاکہ وہ کوئی معقول اثر ڈال سکیں اور معیشت کو صحیح راستے پر ڈال سکیں؟ یہ مسئلہ سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ عدلیہ تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان کو اپنے محصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا ہوگا اور جرات مندانہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ترقی کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔اس تبدیلی کی کلید گورننس، مالی توازن اور احتساب میں بہتری ہے، ساتھ ہی سخت کارکردگی کے جائزے اور اختیارات کی تقسیم کی پاسداری ہے۔
آئی ایم ایف پر انحصار سے آگے بڑھنے کے لیے پاکستان کو ڈیجیٹلائزیشن، فن ٹیک ایکو سسٹم کو فروغ دینا ، تجارت اور مالیاتی خدمات میں جدید ٹیکنالوجیز کو ضم کرنے جیسے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ مالیاتی شمولیت کو مضبوط بنانا، کاروباری اداروں کے لئے ٹارگٹڈ ٹیکس مراعات کی پیش کش اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی از سر نو تشکیل ضروری اقدامات ہیں
ان جدید حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہو کر پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی اور مستحکم مالیاتی مستقبل حاصل کر سکتا ہے۔